سازِ سلاسل

  مظفّر عازم

 2005

 

 

*******

کہتے ہیں کہیں اک بستی تھی، وہاں چاند ستاروں کے گھر تھے

نیلی جھیلوں میں امرت تھا اور امرت میں نیلوفر تھے

 سب سروِ روان سر دھنتے تھے ہر موج ہوا کی شوخی پر

سنبل کہ زلیخا کی زلفیں شمشاد کہ یوسف پیکر تھے

 پھر رُت بدلی، اس بستی کے کھیتوں میں کانٹے اگ آئے

تب سحر زدہ بستی والے سب ان کانٹوں پہ نچھاور تھے

 پھر داؤ پہ تھے کیا کاسۂ  سر کیا مال و متاعِ قلب و جگر

کچھ ان کانٹوں کے مالی تھے کچھ ان کانٹوں کی زد پر تھے

 پھر ہر پگڑی پر پاؤں تھا ہر منہ کا مقدر تالا تھا

پھر ہر حلقوم پہ جونکیں تھیں اور ٹوٹے بکھرے شہپر تھے

 ان ٹیڑھی سیدھی راہوں پر بے راہ ہجوم آوارہ تھا

جو روپ سے رہبر صورت تھے، سرگشتوں کے سوداگر تھے

 بازو سر سے صف آرا تھے، جان اور جگر میں ان بن تھی

سب باسی بونے سائے تھے اور سایوں کی گردن پر تھے

 اس جھیل میں جو بھی مچھلی تھی وہ کانٹا کانٹا کہتی تھی

اس شاخ پہ جو بھی طائر تھے وہ راحتِ دام کے خوگر تھے

 جو داد طلب وہ زنجیری جو عالم سو ہُو کا عالم

اک مقتل محشر ساماں تھا اک گم صم داورِ محشر تھے

 ہر روپ میں غم فریادی تھا ارباب وفا کی محفل میں

کیا عازمؔ تھے کیا آہیں تھیں کیا نالے تھے کیا نشتر تھے

  *~*~* *~*~* *~*~* *~*~* *~*~* *~*~*

 یاں دن کو دھواں چھا جاتا ہے اور شب کو چراغاں رہتا ہے

چھت پر جو کبوتر بیٹھا ہے، دن رات پریشاں رہتا ہے

 اونچی اونچی دیواروں کے سائے سایوں کو نگلتے ہیں

بد روحوں کی بستی نہ کہو یاں حضرتِ انساں رہتا ہے

 چمنی اس شہر کی زینت ہے، کیا اکڑی اکڑی صورت ہے

اندر سے یہ کالک کالک ہے، بیروں ہے کہ تاباں رہتا ہے

 آسیب زدہ ناگن، یہ سڑک، اک بھاگم بھاگ کی ماری ہے

دُم چوک میں باندھے رہتی ہے، منہ سوئے بیاباں رہتا ہے

 گملے میں جو پیاسی سوسن ہے، بیچاری زباں لٹکائے ہے

اور نرگس کی گل آنکھوں میں مبہوت سا ارماں رہتا ہے

ان اونچے ببولوں کے جھنڈ میں ہشیارِ زماں کی کوٹھی ہے

اور بام پہ ورطۂ حیرت میں اللہ کا شیطاں رہتا ہے

 یہ رات کی نیند کی ٹکیاں ہیں، وہ خوابِ ابد کی سُوئی ہے

اس بیگ میں سیٹھ کے ساتھ سبھی جینے کا ساماں رہتا ہے

 تب چپکے چپکے آتا تھا راجا کے محل میں رہتا تھا

اب قہرِ الٰہی آتا ہے، جمہور کا مہماں رہتا ہے

 جو بھیڑ میں گھل مل جائے گا، وہ جان کی خیر منائے گا

جس سر میں سودا ہوتا ہے، وہ سر بگریباں رہتا ہے

 وہ سایۂ زلف کا ساجن ہے، وہ شہر آشوب کا شاعر ہے

عازمؔ ہے کہ رنگ بدلتا ہے، پتھر ہے کہ یکساں رہتا ہے

  *~*~* *~*~* *~*~* *~*~* *~*~* *~*~*

 دعا

سمندر!

یہ بادل کے نادار ٹکڑے

جنہیں اپنی سبکی اور بے مایگی

اوج موج ہوا پر چڑھا کر

بلندی کے موہوم جھانسے میں لا کر

پراگندہ و منتشر کر رہی ہے

 

سمندر!

اس اپنے طلب گار کے لب

کبھی ان کی خیرات سے تر نہ کرنا

*~*~*

اذان

ہوا!

ترا فرضِ منصبی ہے

کہ شاخساروں سے

پیلے پتوں کا بوجھ اتارے

 

مگر

یہ اجڑے چمن

یہ اکھڑے شجر

تو ساکت شہادتیں

اک شہامتِ نا تراش کی ہیں

 

نہ بھول

تیرا حساب ہو گا!

اور، ہاں

ترازو کے ایک پلڑے میں

ایک شاعر کا خواب ہو گا

   *~*~

  آشفتگی کو ترکِ تمنّا کے موڑ پر

شرقِ جمال برق ادا روبرو ہوئی

شبنم لبِ شگوفۂ  پژمردہ پر پڑی

خوشبو ہوا سوار ہوئی چار سو ہوئی

 سورج افق کی آگ کی آغوش جلا

بھولی شفق بھی بھاگ بھری سرخرو ہوئی

 وہ لمحۂ  فراغ چمن باغ باغ تھا

رُت کی پھوار پھول کو وجہِ نمو ہوئی

 اک عہدِ نامراد کے یاس و ہراس میں

اک تازہ کار طبعِ رواں شُکر خو ہوئی

 سب کچھ تہس نہس تھا، بہ یک حرف دل کشا

بیدار خفتہ آرزوئے آرزو ہوئی

   *~*~*

  ہریالی اور نیل گگن

ناچ مرے متوالے من

 نیل آکاش میں کویلیا

لہری، من موجی، بِرہن

 پھولوں کو چھب دکھلاتی

تتلی پھلواری میں مگن

 اپنی خبر پائے نہ سگندھ

ایسے نچائے اس کو پون

 تپتی تڑپتی دھوپ آئی

اوس نثار کرے جیون

 کاجل کاجل شام کی آنکھ

سورج وارے کرن کرن

 راج تِلک سے بھاگے آج

رام کا جی برمائے بن

 پیار کی اگنی روپ بھسم

پیتم کو تاکے سوکن

 مجھ بھولے سے بولا کون

ایک پہیلی لاکھ الجھن

 یہ غم سے آزاد غزل

امریکہ کے نام ارپن

 عازمؔ روپ اپنا پہچان

یہ دِن، یہ دھُن یہ دھڑکن

   *~*~*

       غیر معروف بحر میں ایک تجربہ

جنگل رحمتِ باراں کو ترستے ہیں ہمارے

بادل بحر کی گہرائیوں کو ہو گئے پیارے

 اب کے آگ برستی ہے ہوا کوہ و دمن پر

اب کے تشنگیِ سرو و سمن کس کو پکارے

 یاں اس جوئے خراماں کو خزاں چاٹ رہی ہے

واں اس شاخِ صنوبر پہ ستم گار ہیں آرے

 کس کے در پئے آزار شیاطین کی شہ پر

کس کی رفعتِ افلاک سے ٹوٹے ہیں ستارے

 اب کیا خارِ بیاباں بھی کرے کارِ نمایاں

سوکھے آبلۂ  پائے جہاں گرد کے دھارے

 پوچھوں تجھ سے اے امکانِ کرامات کہیں پر

کوئی زندہ ہے تعذیب تمنّا کے سہارے

   *~*~*

خود اپنا جرم خود اپنی سزا تھی

وہ رات افسردگی کی انتہا تھی

 سرِ شام آرزو ہی سوگئی تھی

نہ دل بے کل نہ ہونٹوں پر دعا تھی

 ہوا بھی خشک لب ہی رینگتی تھی

کلی بھی بے دلی میں مبتلا تھی

 ستانے کا سلیقہ سو گیا تھا

بخود بیزار غصّے کی ادا تھی

 دل رسوا کی برسوں کی کمائی

برنگِ آرزو زنجیرِ پا تھی

 دریچے بند تھے اک بھوت گھر کے

کھلے آنگن میں پر بستہ ہوا تھی

 کنویں کی کوکھ میں پتھر پہ لیٹی

صدا گونگی تھی لب نا آشنا تھی

 نہ منزل کی تمنا کارواں کو

نہ ہمدم کوئی آوازِ درا تھی

 نہ شاہینِ طلب پرواز خو تھا

نہ کوہ و دشت میں پاگل ہوا تھی

نہ کشتی تھی نہ موجیں کھیلتی تھیں

وہ سوکھی جھیل سب ساحل نما تھی

 کسی کوچے میں عازمؔ بجھ گیا تھا

غزل اس خامہ فرسا سے خفا تھی

   *~*~*

 اپنی تلخیِ مے سے ساغر ٹوٹ گیا

پینے والا آنسو پی کر ٹوٹ گیا

 بت کو پجاری بیچ کے کھانے آ نکلا

شرمِ گنہ سے تیشۂ  آزر ٹوٹ گیا

 جادو اب بھی ایک جہاں پر غالب تھا

خود محرومِ یقیں جادوگر ٹوٹ گیا

 خواب کے شہر میں سایۂ  ابرِ بہاراں تھا

آنکھ کھلی تو سارا منظر ٹوٹ گیا

 ٹوٹ گیا پل بھر ہی میں سیلاب کا زور

اک پُل، اک دیوار گرا کر ٹوٹ گیا

 بوجھ اپنی شاخوں کا بھی کم بوجھ نہ تھا

کیسا تھا وہ پیڑ تناور، ٹوٹ گیا

 پھر وادی سے گولی کی آواز آئی

پھر میرے شاہین کا شہپر ٹوٹ گیا

 عازمؔ آج غزل کیوں سہمی سہمی ہے

سوچ صدف میں موتی کیوں کر ٹوٹ گیا

   *~*~*


غیر معروف بحر میں ایک تجربہ

 پیلا پیرہنِ شاخ سرِ خاک پڑا ہے

اور اب عہدِ دل آزاریِ یخ بستہ ہوا ہے

 موجِ آبِ رواں خاکِ ستم گر نے نگل لی

دریا اپنے کناروں سے اماں مانگ رہا ہے

 کس نے حبس کے ماروں کی مناجات سنی ہے

کس کے کھیل سے اے موجِ ہوا دیپ بجھا ہے

 سورج ان کے مساکن کا پتا بھول گیا ہے

میرے شہر منوّر میں جو مخلوقِ خدا ہے

 پہرا نہر پہ ہے، ریت لہو چوس رہی ہے

آزاد اشکِ شرر بار، گرفتار صدا ہے

 ذکرِ پیرِ مغانے نہ سراپائے نگارے

عازمؔ بیت غزل کلبۂ  احزانِ صدا ہے

*~*~*


غیر معروف بحر میں ایک تجربہ

کلی کی پیاس کا شکوہ جگر کو چیر گیا

نہ تھا جو ابر تو شبنم نے کچھ کیا ہوتا

 یہ اک متاع بمشکل بچا کے لایا ہوں

ہوا نے ہاتھ سے خط بھی اڑا لیا ہوتا

 کریدتا نہ قلم زخمِ دل اگر عازمؔ

کلام زرد زباں کا کہاں ہرا ہوتا

*~*~*

 سفر کے ستم بھی دل آزار تھے

مسافر بھی کچھ سست رفتار تھے

 یہ منزل پرستوں سے مخفی رہا

خمِ رہگزر گیسوئے یار تھے

 شکستِ خودی کے بجھائے ہوئے

دل ان کے تمنا سے بیزار تھے

 ہواؤں کے پاؤں میں زنجیر تھی

صدا کے سلیقے گرفتار تھے

 فرات ان کے گاؤں کے دامن میں تھا

کنارے مگر آبِ تلوار تھے

 وہ ہشیار جو سر کٹا کر گئے

جمالِ نظر کے خریدار تھے

 تری یاد کی آنچ آتی رہی

شبِ غم کے لمحات گلنار تھے

 غزل! اب ترے دم سے ہیں لب کشا

وہ عازمؔ کہ بس عجزِ اظہار تھے

*~*~* 

کیا ملا تجھے موسم ہم کر مبتلا کر کے

درد کی متانت کو حرف آشنا کر کے

 دیکھ اے مرے سورج میں ترا ثنا خواں ہوں

نور سے نمو لے کر نار کو نوا کر کے

 آہ کو سکھائی ہے چاہ کی ہوا خواہی

آنکھ کو سِدھایا ہے محو مہ لقا کر کے

 جان سی عطا تیری جان کر لٹا دی ہے

خس مثال پتلے کو برق آزما کر کے

 آپ کی توجہ کی ابتدا عنایت تھی

ہم نے انتہا کر دی ایک التجا کر کے

 در پہ کر گیا رسوا نام پوچھ کر واعظ

ہم خدا کے گھر آئے تھے خدا خدا کر کے

 عشق کی عطا عازمؔ عاقبت فراموشی

درد نے کیا رسوا داستاں سرا کر کے

*~*~*

 پیلے پتے نے دوشِ طوفاں پر

مجھ کو میرا پتا بتایا ہے

 جوئے کم آب کو بدھائی دو

بحرِ ذخّار نے بُلایا ہے

 دوش پر تھا جو تھا سو ہوش نہیں

بوجھ ڈھونے میں لطف پایا ہے

 دستِ کوتاہ و شاخ شاخ گلاب

میرے سپنوں پہ سانپ سایہ ہے

 پائے مجروح و سایۂ  دیوار

کچھ ہمارا ہے، کچھ پرایا ہے

 خستگی سے خفا نہیں ہے بدن

سر کی سوغات کا ستایا ہے

*~*~*

کایا اور چھایا دونوں ہم قامت ہوں

ایسا بھی دن رات میں دم بھر ہوتا ہے

 خواب خیالوں کو پیراہن دیتے ہیں

جاگنے والے بول یہ کیوں کر ہوتا ہے

 لہروں کا یہ رقص ہوا کے ہاتھ میں ہے

یا یہ بحر کی تہ کی شہ پر ہوتا ہے

 کھوج کی خواہش کس موسم میں سوتی ہے

بوجھ کسے خود اپنا شہپر ہوتا ہے

 عازمؔ تیرے شہر کی شہ راہوں پر کیا

اب بھی سایۂ  شاخِ صنوبر ہوتا ہے

*~*~*

 غیر معروف بحر میں ایک تجربہ

سُن اے چرخِ فلک غلغلۂ  آہ و فغاں ہے

تارِ زلفِ شبِ تار رگِ بربطِ جاں ہے

 چاہت پر نہ چلیں گردشِ افلاک کی چالیں

تیرِ فکر بھی پرّاں ہے اگر پشت کماں ہے

 میرے شہرِ کے ہر کوچۂ  خوں رنگ میں تحریر

دستاویزِ دلِ بے بصرِ چارہ گراں ہے

 سورج ہی کی عنایت عَلمِ جرأتِ پیکار

موسم فرطِ تمازت سے اگر شعلہ بجاں ہے

 سُن، میں واقفِ اسرارِ تگ و تاز کہاں ہوں

میری آنکھ تو مسحورِ خمِ موجِ تپاں ہے

 کیسا میکدے میں مکتبِ تفسیر کھلا ہے

مے کیا شے ہے وہاں نشۂ  مایوسیٔ جاں ہے

 رسم و راہِ زمانہ بھی، اور آدابِ سخن بھی

رقصِ شررِ جاں کی بھی تو اک اپنی زباں ہے

*~*~*

  پھڑکتا پرندہ فضاؤں میں ہے

بڑھاپا لڑکپن کے گاؤں میں ہے

 کھلی دھوپ میں برملا کھیل کر

بدن بید زاروں کی چھاؤں میں ہے

 غٹرگوں غٹرگوں زباں آ گئی

تکلف تھرکتی صداؤں میں ہے

 کلائی کو پوروں نے مس کر لیا

دھڑکتا کھلونا بلاؤں میں ہے

 تڑپ کو تکلف سے پالا پڑا

تمنا کی تتلی ‘‘میں آؤں‘‘ میں ہے

نگاہیں دریچے میں اٹکی ہوئیں

خیالوں کا مرکب خلاؤں میں ہے

 زمیں اس گلی کی ہے آہن رُبا

کہ جادو کی زنجیر پاؤں میں ہے

 میں کیا پوچھ لوں، آپ کیا بوجھ لیں

پہیلی تو خلوت سراؤں میں ہے

 ذرا طفل خو عازمؔ پیر ہے

کہ ظالم ستم آزماؤں میں ہے

*~*~*

جب اپنے چاہنے والے کو آنکھ بھر دیکھے

قدِ بلند کو اپنے بلند تر دیکھے

 صبا تو نیند اڑا کر چلی گئی ہو گی

گلاب شاخِ ستم پر ہی دوپہر دیکھے

 غرورِ دشت نوردی کی داستانِ دراز

لہو میں فرس تمنا کو تا کمر دیکھے

 بس اپنے آبلۂ  پا کی آبرو رکھ لے

جنونِ شوق نہ منزل نہ رہگزر دیکھے

 متاعِ اصل کو گنجینۂ  جگر میں چھپا

کہ چشمِ خلق تو بس عکس کا ہنر دیکھے

 زمانہ زہرِ زباں سے نڈھال خود کو کرے

ہماری آنکھ میں درمان در گزر دیکھے

 سخن شناس ہو، اس کے سکوت کو پڑھ لو

جو غم نصیب صدا کو شکستہ پر دیکھے

 وہ پیڑ اپنی خزاں کو سلام کرتا ہے

جو برگِ زرد کی آغوش میں ثمر دیکھے

 ابھی تو پیرِ فلک کے قدم سلامت ہیں

عجب نہیں یہ شبِ تار بھی سحر دیکھے

 پگھلتی برف کے دن ہیں، خدا کرے عازمؔ

شگفتِ گل میں تری آہ بھی اثر دیکھے

*~*~*

 کوئی خیال کرے پل کی پاسبانی کا

کہ آگ ہونے لگا ہے مزاج پانی کا

لہو سے لکھتے رہے اس کو ہم نفس میرے

بنی نہ بات کہ ہیرو نہ تھا کہانی کا

میں آپ اپنی بلاؤں کا میزباں بن کر

رفیقِ کار رہا رنگِ آسمانی کا

خود اپنے سوزنِ مژگاں سے میرے لب سی کر

بھلا ہے اس کا گلہ میری کم زبانی کا

بہ خندہ برق تجلّی، بہ گریہ شبنمِ جاں

شگوفہ شاخِ ستم پر ہے مہربانی کا

بہار خو ہے خزاں میں چنار سایہ مرا

سکوں نواز سہاراہے زندگانی کا

فصیل ٹوٹی تو عازمؔ برہنہ پا بھاگا

کوئی پتا نہ ملا تب سے یارِ جانی کا

*~*~*

غیر معروف بحر میں ایک تجربہ

شب وہ شہرِ خرابات میں کیا ہم نے گزاری

لو اک شمعِ فروزاں کی دل و جاں میں اتاری

نے تھی نارِ نواہاے پُر اسرار سے لبریز

لے تھی روئے گلِ تر کے لیے بادِ بہاری

دیکھیں اپنی نگاہوں نے بھی کچھ اپنی ادائیں

رخ تک آئینہ کے آ نہ گئی آہ ہماری 

یاں تھی ریگِ رواں جلوہ گہِ انجمِ تاباں

واں تھی موجِ تپاں ماہِ درخشاں کی سواری

خاکستر میں رہے تخمِ گُل و لالہ پُر امّید

پتھر سے بھی وہاں جوئے جگر تاب تھی جاری

برگِ سوسنِ گلمرگ سخن ور کی زباں تھی

اک کیفیّتِ کشمیر تھی کونین پہ طاری

لب اک لعبتِ شب تاب کے فردوسِ نوا تھے

عازمؔ! کارِ جنوں بارِ متانت سے ہے عاری

*~*~*

آتشِ جاں میں جل رہا ہے چنار

اپنے موسم بدل رہا ہے چنار

چشمِ نرگس کی آبیاری سے

وادیِ گل میں پل رہا ہے چنار

غرقِ دریا غرور طوفاں کا

آفتوں میں اٹل رہا ہے چنار

کیسا جھکّڑ ہے، جان لیوا ہے

گرتے گرتے سنبھل رہا ہے چنار

پیلے پت جھڑ کا منہ چڑانے کو

سرخ رو بر محل رہا ہے چنار

قافیہ تنگ ہے غزل خواں کا

اس کے اشکوں میں ڈھل رہا ہے چنار

*~*~*

بحر ہی میں نہ ڈوبنا بارش

آنکھ صحرا سے بھی ملا بارش

ریت سے رم ترا تماشا ہے

آبشاروں کی آشنا بارش

پیاس بھی تھی تو پاس بھی تھا ترا

سب کا شیوہ گِلہ نہ تھا بارش

تیری پونجی ہے تو سنبھال اسے

میری پلکوں پہ مبتلا بارش

میں تجھے جل ترنگ کر دوں گا

میرے حجرے میں دندنا بارش

پوچھتی ہے کلی کلی کا مزاج

سیکھ شبنم سے یہ ادا بارش

تھم ذرا تھم ترے برسنے سے

نم ہوئی درد کی قبا بارش

تر پلک تر زبان تر دامن

بارے عازمؔ ہے بر ملا بارش

*~*~*

یہ روز و شب کہ رسوم و قیود سے نہ چھٹے

وہ چاندنی سے گریزاں، یہ دھوپ سے بیزار

وہ دیپ آج بھی پاگل ہوا سے لڑتا ہے

ہو جس کی جوت پہ سورج کی روشنی بھی نثار

نظر نے تیرے ترحّم کے تیر تاڑ لیے

ہوئے نگاہِ کرم سے ہم اور سینہ فگار

نظر کے کھیل کا میداں ہے ماورائے نظر

شبابِ حسنِ بیاں کا حجاب ہے گفتار

جنوں جناب کا بھی کب اچھل پڑا عازمؔ

کہ جب متاعِ سلاسل کا اٹھ گیا بازار

*~*~*

کم شبِ مہ کا التہاب نہیں

خواب محرومِ آفتاب نہیں

آنکھ کی آڑ میں امڈتا ہے

درد بے کل ہے، بے حجاب نہیں

خار و خس بھی ہیں خانہ زادِ چمن

خونِ موسم فقط گلاب نہیں

پیاسے پنچھی کو کیا پلائیں گے

ان کی تلوار میں وہ آب نہیں

لوریاں دے رہے ہو مجنوں کو

جیسے روزن میں ماہتاب نہیں

میکدے میں حرام ہے پرہیز

بخت بد ہے اگر خراب نہیں

ہم گنہگار کس حساب میں ہیں

ہم سے کیا کیا ہوا حساب نہیں

ہم گداگر ہیں، پر نہیں اس کے

اسم جس کا کلید باب نہیں

عام الطاف کا یہ عالم ہے

آج عازمؔ پہ بھی عتاب نہیں

*~*~*

تڑپ کا تیر تمنا کا تازیانہ صبا

تلاش بو میں بسوئے چمن روانہ صبا

کبھی نہ دیکھ سکی دوپہر کو آتشِ گل

مزاج میں ہے کہاں ہم سی عاشقانہ صبا

نشیب باغ خس و خار میں الجھ جاتی

نصیب سے جو نہ ہوتی قلندرانہ صبا

کچھ اپنے طور طیورِ چمن کی داد تو دے

جو ہم سے رکھتی ہے چشمک معاصرانہ صبا

صلیب: سروِ خراماں، گلے کی پھانس: فغان

چمن تمہارا ہمارا غریب خانہ صبا

کبھی جگائیں تمہیں ہم، کبھی جگاؤ ہمیں

سحر کا کھیل رہے ربط کا بہانہ صبا

چمن میں دھوپ ہے، تتلی ہے، اور عازمؔ ہے

یہیں کہیں پہ بنا تو بھی آشیانہ صبا

*~*~*

ذرا سا تو منظر بدل کر لکھوں

تلاطم کے دل میں سمندر لکھوں

میں طرزِ تبسّم سے چکرا گیا

کچھ اس کو طمانچے سے بہتر لکھوں

وہ مسجد جو بھائی کی بستی میں ہے

اسے ضعفِ ایمان کا گھر لکھوں

ستاروں کو قسمت کا کاتب کہوں

قلم کو لکیروں کا تاجر لکھوں

دلِ داورِ شہر سے داد لوں

لُٹے شہر کا حال خوشتر لکھوں

برس کر کروں ذکر برسات کا

تو سورج کا عہدہ گھٹا کر لکھوں

کہیں گاڑ دوں پیاس کو ریت میں

تو صحرا کے سینے پہ ساگر لکھوں

ہنسی میں کروں کوہ افکار سر

ہمالہ کی چوٹی کو چاکر لکھوں

بگڑ کر کروں بند اس باب کو

تکلم کے چہرے پہ چادر لکھوں

مسافر کو منزل رسیدہ کہوں

اور عازمؔ کو طنزاً مظفّر لکھوں

*~*~

سمٹتے وقت کے خط کا جواب لکھتے ہیں

خزاں کی زرد ہوا پر گلاب لکھتے ہیں

منا رہے ہیں تصوّر میں عید عہد شباب

جھکی کمر کو ہلالِ شباب لکھتے ہیں 

لکھے گی کل کی حقیقت ان ہی کی تعبیریں

لہو قلم سے جو لوگ آج خواب لکھتے ہیں

شبِ حیات تمہارے اداس ماتھے پر

لہو سے شوخ قلم آفتاب لکھتے ہیں

سنا ہے زحمت پرواز کے پسینے کو

بیاض خلد بریں میں گلاب لکھتے ہیں

پرانا نسخہ ہے، لیکن ابھی برقصِ شرر

جبین آئینہ پر آفتاب لکھتے ہیں

بساطِ عالم امکاں الف سے یے تک ہے

چلو کہ یے سے ادھر کی کتاب لکھتے ہیں

*~*~*

ہے مزاج داں سنبل موسمِ گلِ تر کا

رخ ہوا کا تاڑ لیا، اور دوپٹا سر کا

دھوپ کی تمازت میں کونپلیں چٹکتی ہیں

درد کا سنگھاسن ہے دید کے سکندر کا

اشکِ نرگسِ شہلا آئینہ ہے سورج کو

چاند کے تبسّم میں حال ہے سمندر کا

عکس کا شکاری ہوں آئینے بناتا ہوں

فطرتِ خلیلی میں سلسلہ ہے آزر کا

اک فغانِ بے ہنگم اشتہار سودا ہے

اک سکوتِ مہر بلب اسم ہے کسی در کا

زہد کے مباحث میں خلد کے صحیفے ہیں

عشق کی تگاپو میں ہر ورق ہے محشر کا

لفظ جو لکھا عازمؔ حشو کا لبادہ ہے

اور عطائے حسن بیان، معجزہ مقدّر کا

*~*~*

نوا میں آگ رہی، کاج میں گلاب رہا

وہ نَے نواز بڑے ناز سے خراب رہا

کرن کرن کی رگوں میں ہے مہرِ ماہِ تمام

طوافِ عرصۂ  گردوں میں آفتاب رہا

اتھل پتھل میں ہے دریا زکوٰۃِ بارش سے

سلیقہ مند سمندر کا اضطراب رہا

برہنہ حرفِ صداقت امینِ آب حیات

ہماری گھات میں ہر گام پر سراب رہا

رہا نہ حدِ نظر تک غبارِ رہ بھی کہیں

وہ قافلہ تو ہواؤں کا ہم رکاب رہا

بیانِ تیغِ طلب کا نیام افسانہ

بہشت کا بھی بیاضِ طلب میں باب رہا

سکوت میں جو سنایا زبانِ سوسن نے

وہ باب ہم نے لکھا، حاصلِ کتاب رہا

میں متفق ہوں وہ عازمؔ تو مختلف ہو گا

جو نیند تج کے طلبگار خلدِ خواب رہا

*~*~*

شرر پاک مری خاک میں جو شامل ہے

رقصِ انبوہ نہیں، رقصِ دلِ بسمل ہے 

موسمِ زرد بنا دردِ طلب کا درماں

سبزہ گویا اثرِ زہر تھا جو زائل ہے

کاٹ کے نیل کوئی کود پڑا ہے کب کا

قافلہ خوف زدہ خفتہ لبِ ساحل ہے

ابر کم مایہ تھا، پلکوں کو بھی نم کر نہ سکا

صبر اے موسم ِ غم، برق ابھی حاصل ہے

مضطرب فطرتِ ہنگامہ طلب ہے عازمؔ

دلِ ناسودہ کسی ناز پہ پھر مائل ہے

*~*~*

ہے یہ آتشِ تر کہ نظر جاناں

مرے ساغرِ جاں میں اتر جاناں

تری پہنائی کا پرندہ ہوں

ذرا تھام تو لے مرے پر جاناں

ہے دفاع کہ حملہ ہے رم تیرا

مرا دم ہے شکستہ سپر جاناں

جسے آگ نے آفت کو بخشا

مری بستی ہے وہ نگر جاناں

یہی ویرانہ مرا کاشانہ

مرے دوش پہ ہے میرا گھر جاناں

مری قید ہے ہم سرِ آزادی

نہیں، اس سے کہیں بڑھ کر جاناں

مری نیند آئینۂ  خلوت ہے

مری شام ہے رشکِ سحر جاناں

مرا بھولاپن مری ہشیاری

مری ہشیاری مرا ڈر، جاناں

مرا حال بھی عازمؔ کا سا ہے

مری ہار ہیں میرے ہنر جاناں

*~*~*

نَے ہوا خواہ ہے تو کیوں نہ نوا ہو جاؤں

اور بے منّتِ الفاظ ادا ہو جاؤں

لہر ساحل سے لڑے، شوخ کو شاباش کہوں

بحر سوجائے تو مجرم کی سزا ہو جاؤں

آبِ جو میں عکس کا رقص نچاتا ہے مجھے

میں پرِ کاہ سرِ موج ہوا ہو جاؤں

کس کو سوچا ہے کہ مٹی کا بدن آگ ہوا

اس کو تحریر کروں تو کیا سے کیا ہو جاؤں

دھوپ کی آنچ سے مجبورِ سفر ہوں عازمؔ

چھاؤں مل جائے تو زنجیر بپا ہو جاؤں

*~*~*

خوشا نصیب کہ آئی، اور وقت پر آئی

بہار اگرچہ بڑی برف کاٹ کر آئی

نظر کرن، کہ دل و جاں غریقِ نور ہوئے

کرن شرر، کہ خس و خار میں اتر آئی

گلوں کی آگ پہ بارش ہے آتشِ تر کی

نظر نے ہونٹ جلائے تو آنکھ بھر آئی

جو گل کی آگ پہ ٹھہرے ترا وہ رنگ کہاں

صبا! صبا! تو چلی جا، کہ دوپہر آئی

فصولِ خواب کا خرمن ہے زر نگار خزاں

کدھر جگایا تھا جوبن جو یہ ادھر آئی

فلک نورد نظر مجھ سے بار بار ملی

یہ جتنی دور گئی، اتنی اپنے گھر آئی

تمام رات گھلی شمع گھپ خموشی میں

دھواں اڑا تو کہیں قدر داں سحر آئی

فریبِ فکر ہے عازمؔ مگر دلاسا ہے

زباں بڑھاپے میں شاید شباب پر آئی

*~*~*

بے سُدھ چوٹی چوٹی سے ٹکرائیں گے

تم تک ٹوٹے پر لے کر کیا آئیں گے

بوڑھے پیڑ کی ٹہنی ٹہنی پیاسی ہے

روٹھے بادل بارش کب برسائیں گے

بارش بھی کیا شور طبیعت رحمت ہے

پیاس بجائے گی تو گھر بہہ جائیں گے

دیوانے دھن میں کانٹوں پر چلتے ہیں

ریت لہو پی لے گی، پھول اُگ آئیں گے

ساحل آ پہنچا ہے، سمندر ساکن ہے

اب تو بیڑا پار ہے، اب کھو جائیں گے

عازمؔ کو تو بس اتنی ہی سدھ بدھ ہے

جامِ سخن چھلکائیں تو جی پائیں گے

*~*~*

رقص کرتے ہوئے، گرتے ہوئے پتےّ دیکھو

شجرِ پیر خزاں خواب جواں ہوتے ہیں

آگ اگلتے ہیں جو دب جاتے ہیں مٹی کے پہاڑ

ہم بھی کیا زندہ ہیں، بس اشک فشاں ہوتے ہیں

اونگھتے چوک میں استادہ سراسیمہ شجر

شہروں میں گاؤں کے پژمردہ نشاں ہوتے ہیں

بھولی بسری ہوئی بوسیدہ کتابوں کے ورق

چیختی روحوں کے اسرار نہاں ہوتے ہیں

پھول کی آگ ہو، شبنم ہو، کہ عازمؔ کی غزل

باغ میں آج بھی رحمت کے نشاں ہوتے ہیں

*~*~*

بیتے ساون کی گود میں بیٹھا

ایک بوڑھا ہے ، ہاتھ ملتا ہے

رات ہر دن کے بعد آتی ہے

چاند ہر شب کہاں نکلتا ہے

شعر عازمؔ کے بس کی بات نہیں

تیغ الفاظ کو غزلتا ہے

*~*~*

بدلیوں کے آنچل جب چاندنی سے پھٹتے ہیں

وہ شرارتی لمحے کشتیاں الٹتے ہیں

خلوتوں کی خوشبو کو کس طرح سہاریں گے

رم کا آسرا لے کر ہم سے جو نمٹتے ہیں

مقتلِ محبت کی ہر ادا کرامت ہے

سر بلند ہوتے ہیں سر یہاں جو کٹتے ہیں

دن ڈھلے تو دھرتی پر دندناتے آئیں گے

دوپہر کو جو سائے راستوں سے ہٹتے ہیں

اس چنار وادی میں کس بہار کے دن ہیں

تتلیاں کچلتے ہیں، کوک پر جھپٹتے ہیں

برف میں اکڑتے ہیں تن برہنہ باغوں کے

بیل کے سیاہ سپنے پیڑ سے لپٹتے ہیں

شام ہی سے عازمؔ کو کام میں لگا دیکھا

رتجگوں کے سرمائے خط میں آ سمٹتے ہیں

*~*~*

نہ جانے کیوں ہے یہ زندانِ جاں نشانہ مرا

جلا ہے تیر تمنا سے آشیانہ مر

مرا یہ عذر ۔‘‘میں یاں خود کو کھوجتا آیا‘‘

خوش آیا خانہ برانداز کو بہانہ مرا

نوا نے بالِ ہوا پر مجھے بکھیر دیا

صبا کے جیبِ قبا میں اڑا ترانہ مرا

بہار بھر جو گلوں ہی کا زر سمیٹا ہے

خزاں کی زرد ہواؤں میں ہے خزانہ مرا

قرارِ قلبِ تپاں ناوکِ نظر سے ہے

مزارِ سینہ فگاراں ہے آستانہ مرا

فلک پہ پھیل نہ جائے یہ گھر کی بات مری

زمیں پہ در پئے آزار ہے زمانہ مرا

گلے کی پھانس بنی ہیں نمک نمک بوندیں

بھلے ہی لہجہ شکر خا ہے شاعرانہ مرا

رہِ طلب میں قدم کس حریم تک نہ گئے

کچھ آپ سے بھی تعارف ہے غائبانہ مرا

شبانہ شہر میں اترے کہاں کے فیل سوار

یہیں کہیں تو کبھی تھا غریب خانہ مرا

کچھ ان کے فتح کے اعلان میں رعونت تھی

کچھ اعتراف ہزیمت تھا جارحانہ مرا

قدم زمیں پہ جما کے اڑان بھرتا ہے

ہوا ہے آپ کے عازمؔ سے دوستانہ مرا

*~*~*

خلوتِ مہر و مہ کے پالے ہیں

شب کی شہہ رگ میں جو اجالے ہی

ہم نے تو پستکیں سنائی تھیں

تم نے دو شبد کیا اچھالے ہیں

شعر کے نیل کنٹھ ہو تو پیو

زہرِ جاں بخش کے پیالے ہیں

تاج پر حق جتانے والے یار

بھائی یوسف کے دیکھے بھالے ہیں

کھول تو دی ہیں کھڑکیاں اس نے

مسئلہ مکڑیوں کے جالے ہیں

بہکی بہکی سی یہ غزل عازمؔ

کیسی نالاں رتوں کے نالے ہیں

*~*~*

موسموں کا کیا کہنا عادتاً بدلتے ہیں

بے نیاز ہیں دریا چلتے ہیں تو چلتے ہیں

آپ کے تکلّف ہیں خلد کے نگارستاں

دل فروش دیوانے خود بخود بہلتے ہیں

اپنے آپ میں سورج، اپنی روشنی لے کر

میرے دیس کے جگنو ناز سے نکلتے ہیں

بے کنار پانی کی کروٹوں کے شہپارے

تر پلک کے دُردانے بحرِ جاں میں پلتے ہیں

اک سفر کی منزل ہے اُس سے دو قدم آگے

جس مقام تک آ کر پر کسی کے جلتے ہیں

دل جلوں کو راست آئی کس بلا کی آب و ہوا

قہقہوں سے بجھتے ہیں آنسوؤں سے جلتے ہیں

پیاس کی کرامت سے شبنموں کے فوّارے

ریت کے کلیجے سے ناگہاں ابلتے ہیں

تیر سے نوا روکیں، تیغ سے ہوا کاٹیں

نے نواز کے در پے نیند میں اچھلتے ہیں

دیکھ دام میں عازمؔ آتے آتے بچ نکلا

موت! تیرے ہرکارے، حیف! ہاتھ ملتے ہیں

*~*~*

فریبِ دید رہا شرق و غرب میں غلطاں

حریمِ کعبہ کے اندر تلاشِ قبلہ کہاں

سرورِ جاں ہیں یہ تیری عنایتیں ساقی

کہ سنگِ رہ سے ٹپکنے لگا مئے عرفاں

یہ مصلحت کا مِلن تو نہیں، مگر ہم تم

ہے ایک تاکِ طراوت تو ایک تابستاں

حریفِ ذات ہوا ہے غبارِ آئینہ

حجابِ دید ہوئی میری آہِ غم ساماں

سبک تھی اوس کرن کا مذاق سہہ نہ سکی

کلی کے ہونٹ تپی دھوپ میں رہے خنداں

نہ رات ٹھیک سے سوئے، نہ دن کو جاگ سکے

سکوں کی راہ کے راہی رہے ہیں سرگرداں

جھلس نہ جائے رگ ِتاک ہی میں روح ِسرور

سلگ رہا ہے غضب ناک زہد کا ایماں

مری سرشت میں اک نازِ سومناتی ہے

بڑا شریر، بڑا شوخ و شنگ ہے ناداں

میں ان کے ذوقِ غلامی سے دل فگار ہوا

گدا سمجھ کے مجھے چل دئے ترے غلماں

متاعِ جان و جگر میری شوخیوں پہ نہ جا

نشانِ عشق نہیں بس بُکا و آہ و فغاں

کلی کا داغِ اہانت ترا پتا پوچھے

جواب ٹال کے نکلے گا تیرا ہیچمداں

سمیٹ شکوہ، بچا اپنی آبرو عازمؔ

سخن شناس نہیں گوشِ گردشِ دوراں

*~*~*

یہ عذر خواہ نظر یوں نہ میری اور اٹھا

پلک کی نوک ادھیڑے گی زخم کا ٹانک

میں انتظار میں کانٹوں سے ہمکنار رہا

قبا بچا کے چلی گل پرست بادِ صبا

وہ آفتاب جو ڈوبا جلا گیا مجھ کو

اور اب یہ چاند جو ابھرا بجھا کے جائے گا

جلے ہیں آج بھی جنگل میں دیودار کہیں

چنارِ جاں کی بجھی سانس میں دھواں دیکھ

جنونِ خام نے بوتل کے جِن سے یاری کی

وہ ایک بار جو نکلا تو پھر سمٹ نہ سکا

شہیدِ شوق کی بھگدڑ میں لاش بھی نہ ملی

وہ حشر تھا کہ کوئی غم نصیب رو نہ سکا

اتر گیا ہے تو پھیلا ہوا سمندر ہے

گئی بہار کا عازمؔ چڑھا ہوا دریا

*~*~*

آسمانوں کا دل چُراتی ہے

گل زمیں سبز گیت گاتی ہے

صبح دم رشکِ کنجِ لب ہے افق

فرش کو عرش سے ملاتی ہے

خنجرِ شوخ ہے شعاعِ سحر

دل میں اتری، اترتی جاتی ہے

دیکھ شبنم ہے چشمِ نرگس میں

اس میں پہلی کرن نہاتی ہے

اک معمّا ہے روئے گل کی آگ

آنکھ کی پیاس کو بجھاتی ہے

ہے قبا تنگ اور کلی الھڑ

چھیڑ پُروا کی گل کھلاتی ہے

طفل خو ہے سبک روی میں صبا

فکرِ محزوں کو گُدگداتی ہے

سایہ جب ساتھ چھوڑ دیتا ہے

اک نوا ہے جو کام آتی ہے

مست بھونرا ہے گنگناتا ہے

ہم کو عازمؔ کی یاد آتی ہے

*~*~*

جگر کی آگ جو یادِ وطن نے سلگائی

خیال چشمۂ  شاہی سے پیاس بہلائ

ہوا کے ساتھ سِلا ہے نصیب کا دامن

خدا گواہ کہ خوشبو نہیں ہے ہر جائی

گلاب زینتِ گلداں، میں خاروخس، لیکن

ہیں دونوں قصرِ طرب میں شہید تنہائی

نہ پوچھ کس کے لیے ہیں یہ لفظ متروکات

نشاطِ سیر چمن، جھیل ڈل کی رعنائی

خدا کے خوف سے بیگانہ تھے خدا والے

خدا کے نام پہ بستی میں آگ بھڑکائی

نشاط باغ ڈل جھیل کے کنارے پر اور چشمہ شاہی کچھ اوپر پہاڑی پر واقع ہے

*~*~*

اس کی حیرت میں کیا حکایت ہے

لوگ کیوں آئینے سے ڈرتے ہیں

عرش آماجگاہ کن کی ہے

اپنے آنگن پہ کون مرتے ہیں

یہ ہوا ہے حباب میں محبوس

یا سمندر بھی آہ بھرتے ہیں

*~*~*

ضبطِ حیا اور باغی زلفیں، موسم کا دم پھول گیا

وقتِ گریزاں دم بھر اپنی بھاگم بھاگ کو بھول گیا

آیا تھا، کچھ باتیں کرتا، اتنی بھی کچھ بات نہ تھی

لب سی کر بیٹھا بے بات کی بات کو دے کر طول گیا

جھڑکی کھائی، کچھ پچھتایا، کچھ تڑپا، کچھ شرمایا

آخر عازمؔ اس آنگن میں پھر حسبِ معمول گیا

*~*~*

ننھی سی جاں میں جرأتِ ابرِ بہار ہے

شبنم کی آبرو پہ سمندر نثار ہے

موسم کی اس ادا سے شجر کانپ رہے ہیں

پھل کی نمود شاخ کی شوخی پہ بار ہے

بزمِ طرب کے قہقہوں کی چھیڑ چھاڑ میں

اندر کی توڑ تاڑ ترا اشتہار ہے

رقبے میں ہے وسیع مرا شہر کا مکاں

اپنی فضا میں تنگ ہے، گھر ہے کہ غار ہے

دھرتی کو اس کا سر پھرا سایہ نچوڑ دے

یہ کس بلا کی بھوک ہوا پر سوار ہے

پی لے گی پیاس ریت کی، پانی کی آس کو

صحراؤں کے سفر پہ رواں رُودبار ہ

باد صبا شگفتِ گل و لالہ کی امیں

اس دور میں بھی شہر پناہوں کے پار ہے

*~*~*

اک تگ و تاز جاوداں ہوں میں

اک تلاطم کی داستاں ہوں میں

کس کو دوں، کیسے دوں پتا اپنا

اپنی آنکھوں پہ کیا عیاں ہوں میں

ماہ و انجم ہیں میرے سیّارے

اک ستارے کا آسماں ہوں میں

چاند پر جھاڑ کر زمیں کا غبار

پھر خلا کی طرف رواں ہوں میں

ہجر کی پیاس کا جلا صحرا

وصل کا گلشنِ جناں ہوں میں

پھول اگاتا ہوں قبر پر اپنی

اپنی میت کا قدر داں ہوں میں

جن کا تحفہ ہے یہ خزانِ جمیل

ان بہاروں کا مدح خواں ہوں میں

سرخ چھینٹے کہ پیرہن پر ہیں

موسمِ سبز کی فغاں ہوں میں

زرد آغوش میں ہیں سبز رتیں

شکر ہے سرخ رو خزاں ہوں میں

ہے شفا جن کی ضربِ کاری میں

ان گلوں کی بھری دکاں ہوں میں

کھل گیا تو فلک فلک روشن

گل کی آغوش میں نہاں ہوں می

کہنہ الفاظ کی قبا پہنے

‘‘خوش تر آں سر دلبراں‘‘ ہوں میں

*~*~*

دور پردیس کو گیا دریا

کس کا تھا کس کا ہو گیا دریا

عمر ہا عمر کی مسافت میں

ایک لمحے کو رو گیا دریا

سو پہاڑوں کی نیند اڑا آیا

اک خرابے میں سو گیا دریا

دائرہ دائرہ ہے جبرِ حیات

بادل آئیں گے جو گیا دریا

اپنی موجوں کی ضربِ پیہم سے

اپنے سینے کو دھو گیا دریا

کوہ زادہ تھا، خود فروش نہ تھا

کس سمندر میں کھو گیا دریا

خود سر و خود شناس و خوش رفتار

مجھ کو عازمؔ ڈبو گیا دریا

*~*~*

بساطِ کون و مکاں، گوشۂ  جگر آغوش

کشادہ خوب ہے. اور تنگ خوب تر، آغوش

بہل تو جائے کھلونوں سے بھی جنوں میرا

ہے یہ جہاں بھی، وہ فردوس بھی، مگر آغوش

ہے رقصِ بسمل جاں کو یہ کائنات آنگن

دلِ شکستہ کو ہے دامنِ نظر آغوش

ہمارا آپ کا تو رشتۂ  تن و جاں ہے

فراق میں بھی ہے گویا کمال پر آغوش

مرا وجود دوامِ سفر سے ہے تعبیر

رہِ طلب میں خم و پیچِ رہگزر آغوش

بس آرزو ہے کہ ہو گل کو ایسی شام نصیب

کلی کو جیسی ہوئی تھی عطا سحر آغوش

ترا بھی قصہ بنے احسن القصص عازمؔ

ترے لئے بھی رہا چاہ بیشتر آغوش

*~*~*

ابر آزردہ ہے سوسن کی زباں سوکھی ہے

نہ ہوئی آج بھی بارش تو گزارا کیا ہے

سنگ الفاظ کی سازش سے زبان لال ہوئی

نازشِ بلبلِ نالاں کا اشارا کیا ہے

کھیل کا ہے نہ سلیقہ نہ تماشے کا دماغ

دلِ عاجز بھرے میداں میں ہمارا کیا ہے

رات کی تیرہ نصیبی میں درخشندہ رہا

راکھ کے ڈھیر میں یہ شوخ شرارا کیا ہے

سیرِ طفلانہ چَہ و ضبطِ تمنّا زنداں

سفرِ یوسفِ جاں سارے کا سارا کیا ہے

چمنِ جاں کو ہے کیوں برقِ نظر کا ارماں

طلبِ سوختہ ساماں کا سہارا کیا ہے

تنگیِ تن میں ہے کیا تارِ نفس کی ہستی

وسعتِ بحرِ تخیُل کا کنارا کیا ہے

پردۂ  گردِ رہِ یار میں کیا ہے عازمؔ

سرد صدیوں کے سوالوں کا یہ دھارا کیا ہے

*~*~*

تنگ آغوشِ نوبہار میں ہے

پھول تتلی کے انتظار میں ہے

سینۂ  سنگ پر جما سبزہ

گلِ گلشن ہی کیوں شمار میں ہے

اعتبارِ سکوں سفر سے ہے

موج محظوظ رودبار میں ہے

میرے قدموں کی خاکِ خوش آثار

کن ستاروں کے انتظار میں ہے

گرتے پڑتے چلے چلو تو سنو

نغمۂ  جاں کہ آبشار میں ہے

قعرِ ظلمات میں ہے آبِ حیات

زمزمِ پاک ریگ زار میں ہے

رفعتیں بانٹتی ہے روحِ ہنر

عازمؔ آشفتہ سر قطار میں ہے

*~*~*

تکتے رہتے ہیں ہم ستاروں کو

سرد پہنائیوں کے ماروں کو

اب کے جاڑا کڑا کڑا گزرا

اوس ٹھٹھرا گئی شراروں کو

یاد یخ بستہ ہے معاذاللہ

کیسے پہچانیں اپنے پیاروں کو

سانس جلتی رہی خزاں سہتے

آنچ ملتی رہی بہاروں کو

سونی سونی سڑک تھی چشم براہ

شہہ ملی زندہ شہسواروں کو

پیلے چہرے پہ عمر نے لکھا

اس نے سینچا ہے سبزہ زاروں کو

پاؤں دھرتی پہ گاڑ دے عازمؔ

کھینچتی ہے ہوا غباروں کو

*~*~*

موجِ خونیں پہ جو سوار ہوئے

زورِ طوفان ہی سے پار ہوئے

گرتے گرتے بنے سمندر ہم

خوش نصیبی سے آبشار ہوئے

جانستانِ چمن رہی شبنم

ہم چراغِ شبِ مزار ہوئے

بادۂ  غم سے ایک دن روٹھے

سادگی سے گناہگار ہوئے

عمر بھر برف زار میں پل کر

ایک دن بلبلِ بہار ہوئے

*~*~*

زلفِ جاناں نے رہبری کی ہے

سائے سائے کو روشنی دی ہے

شرم پگھلی ہے برف کے رخ پر

یہ ہوا تو بہار کی سی ہے

ناؤ بے بادباں ہی پار اتری

کس کے آنچل نے یہ ہوا دی ہے

ایک پہلو میں چاند اترا ہے

ایک پہلو میں رات سوئی ہے

دھوپ یہ دھوپ رشکِ شبنم ہے

اس تمازت نے تازگی دی ہے

بوجھ بوسوں کا ہے پپوٹوں پر

یہ ادا نیند کی پری کی ہے

اہلِ دنیا کو شکوہ ہے ہم سے

بات کیوں ان سے سرسری کی ہے

اف طبیعت بفکر شعر و  وطن

موج زن بھی، بجھی بجھی بھی ہے

سانس حوا کے حسنِ باطن کی

دھن ہماری ہوا کی بیٹی ہے

بتِ طنازِ شعرِ اردو سے

ہم نے پیری میں عاشقی کی ہے

چشمِ نرگس کے دیدۂ  تر سے

فکر عازمؔ نے سرخوشی پی ہے

*~*~*

مری زبانِ تمنا پہ ’کاش‘ آتا ہے

تو دشتِ کون و مکاں اور پھیل جاتا ہے

مرا قلم بھی اسی تیشہ کے قبیل سے ہے

کہ سنگ پر جو گرے تو صدا اگاتا ہ

سلگ کے آئی ہے کس کے نفس کی گرمی سے

کلی کو بادِ صبا سے حجاب آتا ہے

شبابِ شب میں جو گلگشت کا خیال کروں

تو لالہ صحنِ چمن میں دیا جلاتا ہے

رہِ طلب میں جو آتے ہیں خار زارِ ستم

جِلو میں تیری وفا کا گلاب آتا ہے

فرازِ بام دلِ زندہ کی تلاش میں ہے

خوشا نصیب کہ ہم پر نظر جماتا ہے

کبھی جبیں کے پسینے سے گلستاں ہو گا

جو ریگزار کہ پیاسا ہے بلبلاتا ہے

بوہمِ کربِ خزاں ہے اداس بھی عازمؔ

بمدحِ بادِ بہاراں غزل بھی گاتا ہے

*~*~*

سازِ ارماں پہ سوگئی سرگم

دشتِ امکاں ہے داغِ ملکِ عدم

نیند امڈنے لگی سمندر میں

اونگھتا ہے امس کا یہ عالم

وادیِ نجد میں ہے عالمِ ہو

ناقۂ  قیس کا ہے ناک میں دم

شب کی آغوش میں سسکتے ہیں

رتجگوں کی رُتوں کے لطف و کرم

قصرِ تخئیل کی بجھی شمعیں

فکرِ کے گستاخ کے نگوں پرچم

بند آنکھوں میں منجمد آنسو

زخمِ دل پر نمک نمک مرہم

داغِ لالہ سے اٹھ رہا ہے دھواں

پھیر لے آنکھ نرگسِ سرخم

قہقہے کی جبیں پہ قشقہ ہے

بتکدے میں ہے آج ضبطِ حرم

اے قرار! اور زیرِ بار نہ کر

ٹوٹ جائے گا زندگی کا بھرم

کان کھولو کہ آج مہرِ سکوت

دستِ عازمؔ میں ہے بجائے قلم

*~*~*

تیر اپنی تڑپ میں ہے نہ بام اپنی طلب میں

خم پشت کماندار ہے، سیدھی ہے کماں آج

شرمندہ جہنم ہے شرر خوار دھوئیں سے

یخ بستہ ہے تسنیم گلستانِ جناں آج

قمری کو بھی اپنی ہی صدا طوق گلو ہے

بلبل کا بھی دم بستہ دہکتا ہے دہاں آج

نم آنکھ نہیں کیسے بھڑک پائیں گے شعلے

یادیں ہیں خدا جانے گرفتار کہاں آج

دن روئے منور ہے، نہ شب گیسوئے مشکیں

بے کیف و گراں بار ہے رفتارِ جہاں آج

انگار گرفتار ہے پتھر کے جگر میں

اور تیشۂ  بیزار ہے عازمؔ کا بیاں آج

*~*~*

جی نہ جلا، بے باک بہک

ناچ اے مست نظر ان تھ

رات کی چپ کو توڑے تو

دل دیکھیں تیری دھک دھک

پرچھائیں پر مرنے کو

آنکھ اڑی آئینے تک

راہی دل نے گواہی دی

کچھ دیر اس بستی میں بھٹک

اس پردیس کی مٹی میں

دیس کے پھولوں کی ہے مہک

اس کے برق سواروں کے

زیرِ نگیں ہے دورِ فلک

جیون دھارا جوبن پر

روح کا سودا تن کی کسک

کل کی پیاس کو کیا دو گے

پگلے بالک! یوں نہ بلک

عازمؔ کی آشفتہ غزل

شامِ سفر کی شوخ لہک

*~*~*

نہ ہار کی، نہ کبھی جیت کی کتاب پڑھی

ازل سے ہم نے فقط پِیت کی کتاب پڑھی

جو بے زبان کلی کی چٹک سے پھوٹا تھا

زبانِ لال سے اس گیت کی کتاب پڑھی

جو کھینچتی ہے سمندر کے پاس دریا کو

سفر میں ایک اسی رِیت کی کتاب پڑھی

پھر آج نوچ لئے نیند کی پری کے پر

پھر آج خواب میں عفریت کی کتاب پڑھی

کبھی بحسنِ ترنم کلام عازمؔ کا

کبھی بگریہ اسی مِیت کی کتاب پڑھی

*~*~*

اف یہ نیلی فضا یہ چنچل من

پھر وہی تیر پھر وہی تڑپن

پھر وہی پیاس پھر سراب وہی

پھر وہی چاہ پھر وہی الجھن

پھر بہاروں میں کوکتی امید

پھر خزاں میں جھلس رہے خرمن

ایک بوڑھا چنار کڑھتا ہے

ایک وادی کا لُٹ رہا ہے چمن

ایک دیوار پر سوار گھمنڈ

ایک پانی کی دھار ہے کہ مگن

چشمِ بد دور لوگ ہیں جن کا

گھر بھی اپنا ہے اور اپنا وطن

گھیر لیتی ہے لمحہ بھر میں گھٹا

پھر بلکتا ہے دیر تک ساون

برف موسم اکڑ گیا رقاص

رقص روٹھا ہے تنگ ہے آنگن

بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا

دل کی دشمن ہے اپنی ہی دھڑکن

بے ستوں سے نپٹ رہا ہے جنوں

سانس روکے ہے منتظر برہن

چاند سے تابدار اتری تھی

میری کھڑکی میں بجھ گئی ہے کرن

آگ دولت ملی سمندر کو

اور عازمؔ کو شاعری کا فن

*~*~*

شفق اندام سرخ رو ہے شام

جاتے سورج نے کچھ کہا ہو گا

بس کہ چھو کر نکل گیا سورج

روئے ظلمت دمک رہا ہو گا

اف کہ پھولی ہے آرزو کی سانس

ڈور کا تو کہیں سرا ہو گا

گھپ اندھیرا ہے، اپنے کانٹے سے

کسی غنچے کا خوں ہوا ہو گا

یہ زلیخا کا سحرِ زلفِ دراز

چاہِ یوسف کے رنگ کا ہو گا

دشت جو جل رہا ہے، اس کو قیس

شہر کہہ کر پکارتا ہو گا

بو رہا تھا وہ رات بھر آنسو

دن کو سورج سے کھیلتا ہو گا

گیت کو دھوپ میں نہ لے آ ؤ

خواب شرما گئے تو کیا ہو گا

تلخ شیریں سروں میں گاتا ہے

کوئی عازمؔ کا ہم نوا ہو گا

*~*~*

نرم پوروں سے تھکی آنکھوں کو سہلائے گی

نیند آئے گی، پھر اک خواب جگا جائے گ

اپنے شہپر سے ہوا دے کے اڑا لے گی ہمیں

شوخ مینا کسی کہسار پہ چھوڑ آئے گی

شہر آہن میں جھلستی ہے ابھی خواب پری

کسی پاتال کے چشمے میں نہا آئے گی

ایسی نربل بھی نہیں نرگسِ بیمار کی آنکھ

میری وادی میں کھلے گی تو نظر آئے گی

اب کہ سورج کو شبِ تار کا کچھ فیض ملا

روشنی حسنِ مقدر کی قسم کھائے گی

آج کچھ تیز پھدکتی ہے غزل کی بلبل

پھول سے روٹھے گی تو ریل سے ٹکرائے گی

صر صر دشت حقیقت ہے یہ عازمؔ کی فغاں

خواب وادی کے خریدار کو تڑپائے گی

*~*~*

شعلۂ  شمع کو شب تاب بنا دیتے ہیں

زرد رُو ہونے پہ سورج کو بجھا دیتے ہیں

ہم کو منزل کی تمنا بھی سفر بھی مرغوب

زندگی کو بھی دمِ مرگ دعا دیتے ہیں

تاکہ تعبیر کی دریوزہ گری سے چھوٹیں

رقصِ شب تاب میں خوابوں کو جلا دیتے ہیں

کربِ تنہائی میں یہ فکرِ سخن کے دھارے

دل کو اک ربطِ مقدس کا پتا دیتے ہیں

اپنے ہی سچ سے لپٹتے ہیں چمٹ جاتے ہیں

اپنے ہی گھر میں وہ زندان سجادیتے ہیں

عشق اسرار سجا لاتا ہے افسانوں میں

لوگ اسرار کو افسانہ بنا دیتے ہیں

ہر نیا باب بعنوانِ سراب آتا ہے

درس تاریخ کے اوراق بھی کیا دیتے ہیں

دھات کے ٹکڑے بھی مرکز سے وفا کرتے ہیں

ہاتھ میں آپ کے جو قبلہ نما دیتے ہیں

وہ اجالے کہ ہیں بیداریِ دل کے ضامن

سب کو نیند آئے تو عازمؔ کو جگا دیتے ہیں

*~*~*

باغ سارا دھواں دھواں ہے آج

آگ اپنا رواں رواں ہے آج

پھول کا زخم چاٹتی تتلی

سینۂ  غنچہ میں سناں ہے آج

خار و خاشاک حاصلِ خرمن

بے ثمر دامنِ خزاں ہے آج

ترسے ہونٹوں پہ مرثیے آئے

اوس انگار پہ تپاں ہے آج

کن اندھیروں نے کھا لیا سورج

چاند پیلا پڑا کہاں ہے آج

گھر کی چھت سے الجھ رہے ہیں چراغ

دل کا شعلہ عذابِ جان ہے آج

عدل پرور کی آبرو پر بھی

آبِ شمشیر کا گماں ہے آج

صدفِ اشکِ غم ہے پیرِ مغاں

ہدفِ تیر ہر جواں ہے آج

خوابِ خوباں کہ سہمے سہمے ہیں

مرگِ تعبیر کا سماں ہے آج

پال رکھتی ہے روئدادوں کو

لال جو زخم کی زباں ہے آج

عازمؔ افسردہ ارضِ غربت میں

اپنی بستی کا نوحہ خواں ہے آج

*~*~*

فغاں بطرزِ ہزار کر لے

خزاں کو رشکِ بہار کر لے

کراہ سے گریہ سے گرج سے

سکوت کو تار تار کر لے

مہیب شب کی ہلاکتوں پر

لہو کے شعلوں سے وار کر لے

یہ لمحہ تیرا ہے اس کے دم سے

زماں کی سرحد کو پار کر لے

جہاں بھی دیوار ہو گرا دے

یہ جرم تو بار بار کر لے

جو خواب میں دعوتِ سفر دیں

تو خواب پر اعتبار کر لے

صداقتِ انبساطِ غم پر

فدا دلِ سوگوار کر لے

عطائے کامل ہے رقصِ بسمل

خطائے قتلِ قرار کر لے

گناہِ ناکردہ کی کسک کو

چراغِ لوحِ مزار کر لے

فروغِ جاں ہے متاعِ نادر

بس اپنے عازمؔ سے پیار کر لے

*~*~*

دامنِ دل پہ کچھ ستارے ہیں

آخرِ شب کے کیا اشارے ہیں

سب سمندر ہیں آپ کی جاگیر

سانس کے دو بھنور ہمارے ہیں

آپ کی آنکھ کے جھپکنے میں

برق و حاصل کے استعارے ہی

وہی سرمایۂ  حیات ہوئے

عاشقی میں جو کھیل ہارے ہیں

اف وہ انجم جو مادرِ شب نے

آرزوئے سحر پہ وارے ہیں

عشقِ معصوم کے صنم خانے

فکرِ گستاخ نے سنوارے ہیں

خامہ آتش کدے میں اترا ہے

جامۂ  شعر میں شرارے ہیں

کتنے نالے جگر میں ٹوٹ گئے

نارسائی کے ڈر کے مارے ہیں

گوشۂ  خلد میں ہے پردیسی

دل پہ یادِ وطن کے آرے ہیں

کاش اب گھر سے فون آ جائے

آؤ! ڈل جھیل میں شکارے ہیں

جن کو عازمؔ غزل نے چوما ہے

بحرِ موّاج کے کنارے ہی

شکارے: ڈل جھیل کی چھوٹی چھوٹی کشتیاں

*~*~*

دشت کاٹا تو لہو شہر نظر آئے گا

اور پھر شامتِ اعمال کہ گھر آئے گا

بلبلا سطح پہ آ جائے گا دم بھر ہی کو

چیر کر سینۂ  دریا کو مگر آئے گا

کسے معلوم کہ وہ آگ ہے یا ابرِ کرم

لوگ اس بات پہ خوش ہیں کہ ادھر آئے گا

قاضیِ شہر سے لے گا سندِ حسنِ عمل

اور پھر تیغ بکف تاج بسر آئے گا

پر شکستہ ہے مگر مائلِ پرواز ہے دل

جانے کس وادیِ خونیں میں اتر آئے گا

دوڑنے دو کہ سمندر نے بلایا ہے اسے

یہی دریا پھر اسی دشت میں در آئے گا

سبز کانٹوں کی اداؤں کو رجھانے والا

عازمؔ آئے گا ذرا دیر سے، پر آئے گا

*~*~*

پیاسا پیڑ تھا، زرد رتوں کا مارا تھا

بانکا البیلی بیلوں کا سہارا تھا

پانی کیسے صحنِ چمن تک آ جاتا

دھارا خود یخ بستہ ہوا کا مارا تھا

ٹہنی پر ایک گونگی بلبل بیٹھی تھی

پھولوں نے کس دل سے کس کو پکارا تھا

قلب و جگر میں یادِ وطن کا کانٹا ہے

دشتِ سفر تو اپنے طور گوارا تھا

شام کا سایہ پڑتے رنگ اڑ جاتا ہے

دن اپنا تو جگمگ روپ گزارا تھا

مہرِ دہاں تک آتے آتے سوکھ گیا

فکرِ سخن کا تیکھا تیکھا دھارا تھا

بادِ خزاں

’’آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا‘‘

لحنِ بلبل خمِ نرگس گلِ خنداں چھینا

باغ سے بادِ خزاں نے سر و ساماں چھینا

تازگی صبح سے، غنچے سے چٹک، گل سے مہک

اور کانٹے سے تنِ سخت کا پیکاں چھینا

نالہ کی رفعتِ پرواز کے بھی پر نوچے

فکر کے بھی خمِ گردن سے گریباں چھینا

اعتبار غمِ دوراں ہی نہیں لوٹ لیا

ساز پُر سوزِ غزل سے غمِ جاناں چھینا

خوئے رم اپنے تڑپنے پہ قناعت کر لے

تنگیِ فصل نے آہو سے بیاباں چھینا

موجِ نادار ہے اب سانپ دلِ دریا میں

ساحلِ آب سے وہ سروِ خراماں چھینا

اولاً صفحۂ  امید پہ پھیرا پانی

اور پھر مصحفِ تسکین کا عنواں چھینا

ہائے وہ شہر کہ ہے شہرِ تمنا میرا

اس کی گلیوں سے جمالِ قدِ خوباں چھینا

سانس روکے ہے کہیں سہمی ہوئی بوئے چمن

پھول انگنائی سے اور طاق سے گلداں چھینا

پھول تو پھول ہیں کلیوں پہ غضب ٹوٹا ہے

درد کل اٹھے گا، اف، آج ہی درماں چھینا

گردش وقت نے زنجیر سفر پہنا کر

میرے عازمؔ سے فراز سرِ ماراں چھینا

کوہِ ماراں: سرینگر کی مشہور پہاڑی جہاں سے ڈل جھیل سمیت، شہر کا بیشتر حصہ دیکھا جا سکتا ہے۔

*~*~*

موسم کا ہے زمیں کا ہے کس کا قصور ہے

عکسِ چمن سے شیشۂ  دل چور چور ہے

گل پر وہاں غبار،یاں دل پر پہاڑ ہے

باطن میں دار پر ہے جو ظاہر میں دور ہے

الفاظ کیا ہیں پردۂ  اسرارِ ذات ہیں

جو جوہرِ خیال ہے بین السطور ہے

افکارِ قید ہیں کہ رواں دائرے میں ہیں

آزاد اک شرارِ دلِ ناصبور ہے

تیغِ زباں پہ وحدتِ آدم کا وعظ ہے

لہجے کی کاٹ غمزۂ  قلبِ نفور ہے

کرسی نشیں طبیعتوں کے گرم و سرد میں

یا قہرِ بے لگام ہے یا جی حضور ہے

شاہیں فضائے شعر کے افلاک پا گئے

عازمؔ غزل پرست غریق بحور ہے

*~*~*

کل جو سورج نکلے گا وہ ہمارا ہے

کس موہوم امید پہ رات گوارا ہے

دل انگارا بجھ بجھ کے لو دیتا ہے

جانے کس ظالم شبنم کا مارا ہے

درد کی تان کہاں چھیڑو گے مستانو

اب تو نہ وہ میلہ ہے نہ وہ اِکتارا ہے

سیرِ فلک سے پہلے ہم سے مل لینا

بحرِ دروں کا معنی خیز اشارا ہے

برجِ محل میں الو کا کاشانہ ہے

صحنِ گلستاں میں بلبل آوارہ ہے

عازمؔ ہاتھ میں پتھر اور زبان پر گیت

چلئے، آج تو شہر ایسا ہی سارا ہے

*~*~*

سطح پر ایک بلبلا آیا

قعرِ دریا میں کیا چھپا آیا

مشعلِ لالہ کی زیارت کو

باغ میں ایک دل جلا آیا

اپنے شیطاں سے ہم کو لڑوانے

ایک اچھا بھلا خدا آیا

قافلہ بادہ مست آیا ہے

ہم تک اس شب کا ماجرا آیا

رقص کرتی کرن ملی خود سے

عکس آئینہ توڑتا آیا

ایسے وحشی سے کیا ملاتا آنکھ

ریچھ پانی سے بھاگتا آیا

ابتدا ہی سے خشک لب تھی پیاس

اب تو موسم بھی آگ کا آیا

شام! اپنا چراغ لے آنا

دن تو اپنا دیا بجھا آیا

صبح سورج لہو لہو ابھرا

کن ستاروں کا خوں بہا آیا

ایک صورت سے جاں چھڑانے کو

شہرِ صورت گراں کو ڈھا آیا

مدعائے قلم کے حصے میں

مقتلِ حرف بے صدا آیا

بزمِ عازمؔ میں لے گیا کوئی

ایک دل باز سے ملا آیا

*~*~*

ابرِ کرم نے ہن برسایا

پھر مسکن پہ مسافر آیا

میں کیسا بھولا تھا، کہاں تھا

شہر پرایا، شہر پرایا

دیواروں سے سر ٹکرا کر

دیوانے نے دل بہلایا

ٹوٹا طائر پیڑ پہ بیٹھا

واہ ہری ٹہنی کا سایا

دل میں درد کی کلیاں پھوٹیں

صحرا میں گلشن کھل آیا

تیری طبیعت طرفہ تماشا

سادہ دلی نے دھوکا کھایا

دیپ دریچے میں رکھ دینا

ذوقِ سفر نے پھر برمایا

رات کی پچھلی آن کی شوخی

خود سوئی سورج کا جگایا

کوئل خود لمحہ بھر کُوکی

صحرا کو پہروں تڑپایا

آج غزل کی لے تیکھی ہے

عازمؔ نے خود ساز اٹھایا

*~*~*

رات کے گیسو میں جگنو چمکائیں گے

چاند ستارے آئیں گے جب آئیں گے

جب ہم موج صبا تھے عرضِ چمن کم تھا

اب شبنم ہیں غنچے میں آ جائیں گے

وادیِ گل کی بادِ صبا کے متوالے

جس صحرا میں جائیں پھول اگائیں گے

ناہنجار اندھیروں کے اس موسم میں

تیرے آنے تک خود میں چھپ جائیں گے

بات زبان تک آ کے ہوا ہو جاتی ہے

لحنِ سکوت سے بزمِ جنوں گرمائیں گے

برق قدم کچھ رہرو آنے والے ہیں

راہوں کو ہم اور ذرا پھیلائیں گے

روشنیاں اس جیت کا جشن منائیں گی

ساتوں رنگ آپس میں اگر مل جائیں گے

لوگ اپنے اپنے آنگن پر مرتے ہیں

ہم دیواروں سے کیا سر ٹکرائیں گے

اے دریا! ہم خالی دامن کیا لوٹیں

بے بادل ہم کیا بارش برسائیں گے

عازمؔ تم صحرا میں صدائیں دیتے رہو

پھر پو پھوٹے گی پھر پنچھی گائیں گے

*~*~*

ان کا فراز بام بھی بندے کا گھر بھی ہے

زنجیر بھی ہے پاؤں میں ذوقِ سفر بھی ہے

سِحرِ شبِ شریف بھی دل کو پسند ہے

شدت سے انتظارِ طلوعِ سحر بھی ہے

یوں آفتابِ پیر سے جو بے نیاز ہے

یہ دَور باندازِ دِگر دیدہ ور بھی ہے

اک ساعقے سے بند ہوئی نبضِ کائنات

دم بستہ رسمِ گردشِ شمس و قمر بھی ہے

وہ چہرہ چہرہ بھی ہے اور آئینہ بھی ہے

اندوہِ امتحاں بھی ہے لطفِ نظر بھی ہے

روئے بہار سبز خزاں زرد رنگ ہے

سورج ترا کرشمہ اِدھر بھی اُدھر بھی ہے

عازمؔ بہارِ نغمہ متاعِ سکوت ہے

پھر تیرے پاس بے ہنری کا ہنر بھی ہے

*~*~*

شغل معصوم سا ہے، شعر سنانے کا ہے

حیلۂ  شوخ کسی بزم میں آنے کا ہے

پھر وہی خواب جسے خوابِ تمنا کہئے

آگ ندی کے تلاطم میں نہانے کا ہے

شام آئی ہے تو پھر ڈوب گئی ہیں پلکیں

کہ یہی وقت مرے دیپ جلانے کا ہے

پھول کی گود میں آسودہ ہے گم سم بھونرا

میرے معصوم لڑکپن کے زمانے کا ہے

دل کو تڑپاتے ہیں اَن دیکھی رتوں کے ارماں

صدمہ بھی موسمِ گل پوش کے جانے کا ہے

معجزہ ایک ہی ہے غنچۂ  گل اور دل کا

چاک ہونے کاہے، اور خوں میں نہانے کا ہے

ہائے اک شہر کی ویران گزرگاہوں میں

دفن ارمان مرا پھول بچھانے کا ہے

شعر کے روپ میں افسانہ سنادیتا ہے

اپنا عازمؔ تو کسی اور زمانے کا ہے

*~*~*

رہزنوں کو پچھاڑ آئے تھے

کس نے منزل پہ قافلے لُوٹے

بات کیسی کہی تھی ظالم نے

لاڈلے بس لہو بہائیں گے

رات کرب و بلا میں کاٹی ہے

صبح غنچے صبا سے ڈرتے تھے

قہرِ طوفاں سے پنجہ زن ہیں پیڑ

گھونسلے گر رہے ہیں شاخوں سے

یہ مزاجِ غزل نہیں لگتا

شعر عازمؔ نے ہی سنائے تھے

*~*~*

کربِ تاریکی میں تاروں کی بہار

کچھ تو جگنو بھی کریں گے یلغار

وقت نے پیڑ پہ پت جھڑ لکھا

پیڑ نے پالی ہے رگ رگ میں بہار

راہ کیوں بھول گئی ہے برکھا

اے مرے پیاسے پکھیرو! ملہار

لفظ تھک ہار کے منہ تکتے ہیں

آہ بن جاتی اپنا اظہار

*~*~*

غزل پر غزل گنگناتے ہیں شاعر

بڑا طبلۂ  دل بجاتے ہیں شاعر

شبِ ہجر کے دشت میں دندنا کر

غم عشق کی گرد کھاتے ہیں شاعر

فریبِ تخیل کی کرتے ہیں کھیتی

تو امرت پہ کائی اگاتے ہیں شاعر

تھکے قافیوں کی قبا کا کرشمہ

بجھی فکر کو ڈھانپ لاتے ہیں شاعر

غزل گاہ میں کوہکن کی مدد سے

ردیفوں کے پتھر بچھاتے ہیں شاعر

فعولن فعولن غباروں میں بھر کر

خودی کو خلا میں اڑاتے ہیں شاعر

کسی کھوکھلے استعارے کے اندر

جنونِ عمل کو سلاتے ہیں شاعر

تغافل سے گل کے جو بلبل پہ بیتی

کلی کو گلی میں سناتے ہیں شاعر

نہ سولہ سے نیچے، نہ سترہ سے اوپر

صنم کا جنم دن مناتے ہیں شاعر

تری دید کی آرزو کے ستائے

ہری گھاس پر سوکھ جاتے ہیں شاعر

ترے روبرو مدعا کیا کہیں گے

حیا دار ہیں لِکھ کے لاتے ہیں شاعر

جہاں سے تجھے مدعی لے اڑا تھا

وہیں اب رجز گانے جاتے ہیں شاعر

خود اپنا قصیدہ لکھے کوئی عازمؔ

تو محفل میں اس کو بلاتے ہیں شاعر

*~*~*

آگ کو جامہ کروں، رقص طرب ناک کروں

دولت دیدۂ  تر صرف رگ تاک کروں

نگہِ ناز کی تائید ہنر کے صدقے

پرِ پروانہ سے پیمائشِ افلاک کروں

نیند کے شہر میں اک لہر نے کروٹ لی ہے

خاطرِ خواب کا شعلہ سرِ خاشاک کروں

کس کرامات سے پتھر سے نچوڑوں پانی

سنگ الفاظ کو کس رنگ غزلناک کروں

آپ کے عازمؔ شب سوز کا ہم چشم ہوں میں

آگ کو جامہ کروں رقص طربناک کروں

*~*~*

نشیبِ بحر میں ہے موجِ بے قرار ابھی

کہ چاند کا ہے سمندر کو انتظار ابھی

وہ رنگ اداس ہوئے جو زکوٰۃ موسم تھے

ترنگ میں ہے مگر روحِ نو بہار ابھی

ہمارے نام پہ ہر شام دیپ جلتے ہیں

کہ ہے غریب سے اہلِ وطن کو پیار ابھی

گئے دنوں کے تعلق کی سبز یادوں سے

بریدہ شاخ پہ بلبل ہے نغمہ بار ابھی

زہے نصیب کہ خود سے ہے ہمکلام عازمؔ

بھلے ہی بحر میں ہے موج مستعار ابھی

*~*~*

موسم

وقت کے عقبی دروازے سے

در آئی اک صبح گزشتہ

چونچیں مار کے قلب و جگر کو چیر رہی ہے

 

کھڑکی کی درزوں سے دھوپ نے جھانکا تھا

میں نے کھڑکی کھولی تھی تو

موجِ ہوا نے میرا چہرہ چوم لیا تھا

اور ابابیلوں نے حکماً

کمرے کی اندرونی چھت پر

اپنا کاشانہ جوڑا تھا

 

میری پیاسی نظروں اور ابابیلوں کا

پیہم انتھک رقص ہوا تھا

 

دشت زماں کی سرگردانی میں دن کیسے بیت گیا

چھت پر لٹکا بھوت کی آنکھ کا خالی حلقہ گھُور رہا ہے

دھوپ کہیں پژمردہ پڑی ہے

کھڑکی کھولوں

انجر پنجر برف ہوا کی کاٹ سے

کاٹھ کا ہو جائے

 

بھولی نظرکس بوتے پر آنچل پھیلائے ؟

کمرے میں آئیں گی ابابیلیں تو کیسے ؟

(کشمیری سے ترجمہ)

*~*~*

۱لف

الف !

یہ تیری قامت راست

میری آنکھوں کی بینائی

 

ب پ ت

کچھ نقطوں کے اوپر نیچے

اوندھے منہ افتادہ ہیں

ج اور چ ہیں ٹیڑھے میڑھے

ع اور غ ہیں آڑھے ترچھے

د اور ذ ہیں پشت خمیدہ

ق اور ن کا پھولا پیٹ

ک ہو، گ ہو

ل ہو، م ہو

تیری راست نصیبی کس نے پائی ہے

تو حرفوں کے صفحے پر ہے

تنہا سیدھی قامت والا

اور میں ...

جس نے اس جھرمٹ میں

بس اک تجھ کو ڈھونڈ نکالا

تو بھی بے ہمتا ہے

اور میں بھی ممتاز

 

الف! مری اک خواہش ابھری

تیرے نور کی مدح میں اک سیپارا لکھوں

تیری یکتائی کو تحفہ پیش کروں

قلم اٹھا

تو بات کا روزن بند ہوا

ب پ ت اور ث کو چھوڑوں

تو کیسے جوڑوں الفاظ

 

اس الجھن میں

تیری اکہری سیدھی قامت

پلٹ پلٹ کر

چشم قلم نے کیا دیکھا ...

ب پ ت اور ث میں لیٹا

ع اور غ میں اکڑوں بیٹھا

ق اور ن میں وا آغوش

ک اور گ میں خود ہی خود کو سہارا دیتا

اچھر اچھر میں سب بھیس بدلتا

ایک ہی عشوہ طراز

لام کی گود میں ایک الف ہے

اور الف میں لام اور ف

 

الف !

مرے تنہا خوش قامت

تیرے نام کی مدح کروں

کس اچھر کو غیر کہوں

کس سے رکھوں دامن دور

 

(کشمیری سے ترجمہ)

*~*~*

باز دیدہ

جُگ جُگ بیتے

کاخ بلند کا اک اک شیشہ چُور ہوا

کھڑکی کھڑی ، دروازہ دروازہ ٹوٹا

اور چھت ٹپکی

ٹپ ٹپ ٹپ

 

روشن دانوں پر مکڑوں نے جال بُنے ہیں

دھوپ کی کرنیں ٹھٹھر ٹھٹھر کر بھاگ آئیں

 

نور کے آقا !

اس ظلمت میں سانس اکھڑ جائے گی

بچا

 

میرے شوق کی نظروں کے رنگین پروانے

رینگتے رینگتے گھس جاتے ہیں

کھوجتے ہیں دیواروں پر

چھت سے رِستی بوندوں کی تصویر کشی

بھاگتے لمحوں کے البیلے نقش قدم :

بن مینا کی کالی آنکھوں کے

سائے میں ابلتے

چشموں کی بل کھاتی لہریں

جانے کب سے اس کھڑکی سے یوں لٹکی ہے

تھکی ہوئی ہے

اور ادھر اک نیم بریدہ سبز کبوتر

آرزوئے پرواز میں چھت کے اک تختے میں

آویزاں ہے

رحم طلب نظروں سے اپنے

خاک و خس میں بجھنے والے

شعلۂ  خوں کر گھور رہا ہے

 

کھڑکی کی دہلیز سے آگے

جانے اس چوہے کی جاں کیسے نکلی ہے

بلی بے چاری تو یہاں آنے سے رہی

(چوہا بھی آبادی ہی میں جی سکتا ہے)

کیا تم کو بھی چوہے سے گھن آتی ہے؟

کھا تو نہیں جاتا ہے کسی کو

پھر بھی اس کی آہٹ سے

آدم کی شریف اور پاک اولاد کی راتیں

اکثر لٹ جاتی ہیں

کیسے کیسے زیرک فلسفہ دان

چوہے نے کتر لئے ہیں

آہٹ پاکر تیز اساڑھ کی دھوپ میں سارے

موم کی صورت پگھل گئے ہیں

میں نے بھی اک نٹ کھٹ چوہا

دانے دانے کو ترسا کر مار ہی ڈالا

لیکن مجھ پر ٹوٹ نہ پرنا

جب مسکن کی چھت ٹپکے تو

کون کہاں سے دانہ پانی ڈھونڈ کے لائے

 

بن مینا اور نیم بریدہ سبز کبوتر

میں اور میرا جاں سے گزرتا نٹ کھٹ چوہا

پھسلن والی اک ڈھلوان پہ اٹکے ہیں

 

آگے کو جو پاؤں اٹھائیں

پیچھے کو پھسلا جائے ہے

(کشمیری سے ترجمہ)

*~*~*

العطش

تیرا کیسا جھنجھٹ ، پانی !

بحر سے بالِ ہوا لے آئے،

قلۂ  کوہ پہ دے مارے

برہم دریا

پتھریلی راہوں پہ گھسیٹے، لوٹا دے

آوا گون سے جی تو جل جاتا ہو گا؟

 

یاد ہے،

ذی روحوں کے سہارے !

تو نے اپنے بیری منہ کو ٹیڑھا کر کے

سینہ پھلا کر

زیست کا ستیا ناس کیا تھا؟

 

شاخ شجر کی ناؤ بنانے والا کوئی

تیری قہری لہروں کو

پامال نہ کرتا

تیرا شکوہ کرنے کو بھی آدم زاد کا

نام نہ رہتا

 

 

تجھ کو پانی پانی کر دوں؟

تپتا صحرا،

پیاسے معصوموں کی دُہائی

کس خونی خنجر کے خوف کا مارا تھا تو؟

تجھ کو لینے کیوں نہ عقابی پر پھیلائے آئی ہوا؟

تب تیرا کہسارشکن مقدور کہاں تھا؟

کوئی اپنی موجۂ  خوں سے

خود اس ریت کو سینچ نہ لیتا

تیری آنکھ میں پانی تھا؟

 

پانی !

میرے مسافر ساتھی !

اک دن سورج میرے سر پر

اور تو میرے سامنے

سپنا دیکھ رہا تھا

میں نے تیرے سینے کے گہوارے میں

اک چھایا دیکھی

بالکل میرا چہرہ مہرہ

رقص جنوں میں لہریں اس کو دھنکتی تھیں

(تجھ کو دھنکنے کو بھی آخر کون ملا!)

 

پانی! جب تو پیڑ کی رگ رگ سینچ کے پھل میں آ جاتا ہے

ساتھ میں کیا کیا لے آتا ہے؟

مجھ کو پیڑوں پودوں میں اپنے پرکھوں کی بو ملتی ہے

دست ہوا کا سب بکھرا بکھرایا دم میں سمٹ جاتا ہے

شارع وقت کے دونوں سرے جُڑ جاتے ہیں

 

دیکھ !

تجھے جب میری خاکستر مل جائے

غنچۂ  گل میں سمو دینا

(کشمیری سے ترجمہ)

*~*~*

رنگِ پارس

دریں جلوت سرا خلوت گزینم

کہ من جز خویشتن کس را نہ بینم

بتاں را از سجودے دل گدازم

ادا فہمِ طلسمِ کفر و دینم

پر و بالم گرفت آتش بدامن

قریبش گشت فکرِ آتشینم

سزد گر نقشِ خود بر من بریزی

‘‘بلا انگشتری و من نگینم ‘‘

زباں را درکش اے ذوق فغاں تو

کہ من رازِ نگارے را امینم

چو عازمؔ انگبیں از پارس آرم

زبان ار می کشاید نازنینم

 

5 مارچ 1956

 

*~*~*

ساقیا مست طواف در تو یارانند

ایں چہ عالم، ہمہ گریانند و ہم شادانند

آخرش عمر فنا کوش بکار آمدہ است

بتو اے بخت خوش آثار باطمینانند

ضرب مژگان تو خوردند و بساز آمدہ اند

نیست از گردش گردوں کہ چنیں نالانند

شوخ طبعان محبت بخود و بیدارند

کہ بصحرائے جنوں اسپ طلب می رانند

علم انگشت بلب، سر بگریبان دانش

کہ ز اسرار مقامات سفر نادانند

شان تو گر تو بشان چشم کرم بکشائی

من نگویم کہ بیک نیم نظر ارزانند

مست مرغان غریب الوطن و سینہ فگار

بسکون دل خود بر در تو حیرانند

تا غمِ خانہ حجاب چشمِ حیراں نشود

بفراموشیٔ کاشانہ بجاں کوشانند

جذبِ شان را مدہ از پرسش احوال بباد

این زماں غرق سرور نظر از دل و جانند

بکرم آ تو کہ ناگفتۂ  شاں می دانی

تو کہ دارائی و در کوئے تو محرومانند

عازمؔ گنگ درین انبوہِ مستاں آمد

ہمہ شاں حرف تمنا بزبانش خوانند

(1992)

٭٭٭

 



تاثرات


جناب مخمور سعیدی کے ایک خط سے اقتباس

۔۔۔ نے آپ کے مجموعۂ کلام کا مسودہ مجھے دیکھنے کو دیا تھا اور کہا تھا کہ میں اس پر ایک ناقدانہ نظر ڈالوں، مگر میں نے جب اس کا مطالعہ شروع کیا تو مجھ پر ایک ایسا کیف طاری ہوا جس میں میں کھو کر رہ گیا۔ لفظ اور معنی دونوں کی سطح پر آپ کے ہاں جو تازگی ہے وہ آج کل کی شاعری میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے، اور اس کا سر چشمہ آپ کے جودت طبع کے علاوہ وہ ذہنی پس منظر بھی ہے جس کی تشکیل میں اپنی سسر زمین، اس کی روایات اور اس کے موجودہ حالات سے آپ کی جذباتی وابستگی صاف محسوس کی جا سکتی ہے

مخمور سعیدی   یکم مارچ 2005

 

سازِ سلاسل پر تبصرہ

(اقتباس)

جناب عبید الرحمان

(رسالہ ادبی دنیا،نئی دہلی، مئی(2006)

مظفّر عازم کا شمار ایسی شخصیتوں میں ہوتا ہے جنھوں نے کئی زبانوں کے حوالے سے اپنی شناخت قائم کی ہے۔۔۔۔ ان کا آبائی وطن کشمیر ہے اور انھوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ وہیں گزارا ہے اور وہاں گزارے ہوئے دنوں کی یادیں آج بھی ان کی ہمسفر ہیں۔

بہار خو ہے خزاں میں چنار سایہ مرا          

سکوں نواز سہارا ہے زندگانی کا

نہ پوچھ کس کے لیے ہیں یہ لفظ متروکات      

  نشاطِ سیرِ چمن، جھیلِ ڈل کی رعنائی

ایک غزل میں اس جنت نشان وادی کے گذشتہ دنوں کی کہانی یوں بیان کی ہے۔

کہتے ہیں کہیں اک بستی تھی، وہاں چاند ستاروں کے گھر تھے

نیلی جھیلوں میں امرت تھا اور امرت میں نیلوفر تھے

سب سروِ روان سر دھنتے تھے ہر موج ہوا کی شوخی پر

سنبل کہ زلیخا کی زلفیں شمشاد کہ یوسف پیکر تھے

اس غزل کا شعر ایک حساس دل کو تڑپا دیتا ہے اور کسک بن کر اس کی رگ و پے میں اتر جاتا ہے۔ ۔۔۔ مجموعے کے آغاز میں مخمور سعیدی کا مضمون شامل ہے جس سے مظفّر عازم کی شاعری کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے مگر شاعر کی باطنی دنیا تک رسائی اور اس کی شاعرانہ شخصیت کی صحیح شناخت کے لیے اس کے اشعار سے براہ راست رابطہ ضروری ہے جن میں تہ در تہ معنی و مفہوم کی ایک دنیا آباد ہے۔ اس دنیا سے گزرتے ہوئے قاری محسوس کرے گا کہ وہ شاعری کی ایک انتہائی خوبصورت اور با معنی فضا کی سیر کر رہا ہے۔ شعری مجموعوں کی بھیڑ میں ایسے مجموعے بہت ہی کم دستیاب ہیں جو خود کو پڑھوا لیے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور جنہیں جتنی بار پڑھا جائے شاعری کی پرتیں کھلتی جائیں گی۔ ''سازِ سلاسل'' ایسا ہی ایک مجموعہ ہے جو قاری کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔

کتاب کے آخر میں شاعر کی چند کشمیری نظموں کے منظوم تراجم شامل ہیں۔ ترجمہ چونکہ شاعر نے خود کیا ہے اس لیے اس پر ترجمے کا گماں نہیں گزرتا۔ ان کے علاوہ فارسی کی دو در غزلیں بھی شامل ہیں جو اس زبان پر شاعر کی گرفت اور قدرت کلام کا پتہ دیتی ہیں .


مظفّر عازم: کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن کا شاعر

- مخمور سعیدی -

جناب مظفر عازم کی شاعری کو وادیِ کشمیر کی آواز سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، ان کی غزلیں ہوں یا نظمیں، انھیں پڑھ کر اسی تازگی کا احساس ہوتا ہے جو اس جنت نشان وادی کی فضاؤں کا خاصہ ہے۔ ان کا لہجہ روایتی عناصر سے گراں بار نہیں اور اظہار و بیان کی وہ رسمیات جو بالعموم شعر کو بوجھل بنا دیتی ہیں، ان سب سے عازم صاحب نے غالباً شعوری طور پر اجتناب برتا ہے۔

جناب مظفر عازم کے موضوعات سخن بھی نئے ہیں جو انہوں نے اپنے گرد و پیش کی زندگی سے اٹھائے ہیں جو انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی۔ انھوں نے  اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے سانس لیتے ہوئے معاملات و مسائل کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور کھلے دل اور کھلے دماغ سے انھیں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں وہ پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔

اپنی سر زمین سے محبت آدمی کا فطری جذبہ ہے۔ مظفر عازم بھی اپنی شاعری میں اس جذبے سے سرشار نظر آتے ہیں لیکن اس سرشاری میں ہوشیاری بھی ہے۔ وادی ھ کشمیر کے خوش نما مناظر، پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں،چناروں اور دیوداروں کے بلند قامت درختوں کی سرخ و سبز قطاریں، ندیوں کی روانی، اور چشوں کا خوش آہنگ ترنم اور ڈل میں ڈولتے آہستہ خرام بوٹ ہاؤس اور تیز رو کشتیاں — سلیقے سے سجی ہوئی تصویروں کی طرح مظفر عازم کے شعری نگار خانے کی زینت ہیں، لیکن ان تصویروں کو دھندلا کر دینے والے، ان کے حسن کو ماند بلکہ ملیامیٹ کر دینے کی کی خواہش رکھنے والے کج اندیشوں کی کار گزاریوں سے بھی وہ بے خبر نہیں ہیں، اور ان پر ان کی تشویش اس مجموعے میں شامل نظموں اور غزلوں میں ایک زیریں لہر کی طرح رواں دواں صاف دیکھی جا سکتی ہے اور اس کی شدت کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قابل قدر بات یہ ہے کہ اکثر موقعوں پر ان کا رد عمل منفی نہیں ہے اور وہ حالات میں بہتری آنے کے امکان کو مسترد نہیں کرتے :

رات کی تیرہ نصیبی میں درخشندہ رہا                              

راکھ کے ڈھیر میں یہ شوخ شرارہ کیا ہے

گملے میں جو پیاسی سوسن ہے بیچاری زباں لٹکائے ہے             

اور نرگس کی گن آنکھوں میں مبہوت سا ارماں رہتا ہے

دریچے بند تھے اک بھوت گھر کے                                  

کھلے آنگن میں پر بستہ ہوا تھی

خواب کے شہر میں یہ ابر بہاراں تھا                                 

آنکھ کھلی تو سارا منظر ٹوٹ گیا

پھر وادی سے گولی کی آواز آئی                                      

پھر میرے شاہیں کا شہپر ٹوٹ گیا

یہ پر ٹوٹا شاہیں آج بھی ان کا ہمسفر ہے اور وادی میں گونجنے والی گولی کی آواز ان کا تعاقب کر رہی ہے۔

مظفر عازم برسوں سے اپنے وطن مالوف سے دور، دنیا کے خوشحال ترین خطّے میں مقیم ہیں۔ یہ کہنے کی شاید ضرورت نہیں کہ اپنی سر زمیں سے یہ دوری انھوں نے بہتر وسائلِ معاش کی خاطر گوارا کی ہو گی، اس مقصد میں انہیں کامیابی بھی ملی اور زندگی کی آسائشیں ان کا مقدر بنیں لیکن اجنبی دیاروں کی نامانوس فضاؤں میں شاید وہ ذہنی آسودگی حاصل نہ ہو سکی جس کے وہ جویا تھے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ آسودگی کی جگہ نا آسودگی ہاتھ لگی۔ مظفر عازم کے شعری کینواس پر یہ رنگ بھی خاصا نمایاں ہے :

ہواؤں کے پاؤں میں زنجیر تھی               

صدا کے سلیقے گرفتار تھے

پیلے پتوں نے ہوش طوفاں پر                

مجھ کو میرا پتا بتایا ہے

پائے مجروح و سایۂ دیوار                     

کچھ ہمارا ہے، کچھ پرایا ہے

پھڑکتا پرندہ فضاؤں میں ہے                  

بڑھاپا لڑکپن کے گاؤں میں ہے

صبا تو نیند اڑا کر چلی گئی ہو گی            

گلاب شاخ شاخِ ستم پر ہی دوپہر دیکھے

نیند اڑا کر چلی جانے والی صبا کے آوارہ خرام جھونکے کدھر سے آئے اور کدھر چلے گئے، شاعر ہمیں یہ اطلاع نہیں دیتا لیکن گلاب کو یہ مشورہ دے کر کہ وہ دوپہر کا نظارہ شاخِ ستم پر ہی رہ کر کرے، وہ گلاب کو خود اپنی ذات کا استعارہ بنا دیتا ہے۔

مظفر عازم چند موضوعات کے اسیر ہوں، ایسا نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں ہی کہا ہے، ان کی شاعری میں زندگی اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ رنج و راحت، غم و نشاط، درد و درماں، غرض زندگی سے تا بہ مرگ انسان جن مراحل سے گزرتا ہے، مظ‌فر عازم کی ان سبھی پر نظر ہے اور ان مراحل سے گزرتے ہوئے جو گوناگوں کیفیات انسانی وجود  پر طاری ہوتی ہیں، ان کی نظموں اور غزلوں میں ان سب کی عکاسی دیکھی جا سکتی ہے۔

مظفر صاحب کی زبان قدرے فارسی آمیز ہے لیکن ان کی بعض غزلیں اس زبان میں ہیں جسے ہم ہندی آمیز بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک غزل کے یہ چند شعر دیکھیے :

ہریالی اور نیل گگن                ناچ مرے متوالے من

نیل آکاش میں کویلیا              لہری، من موجی، برہن

پھولوں کو چھب دکھلاتی        تتلی پھلواری میں مگن

یہ ‘‘غم سے آزاد غزل‘‘ انہوں نے ‘‘امریکہ کے نام ارپن‘‘ کی ہے جہاں کی کھلی فضاؤں میں وہ اب داد سخن دے رہے ہیں۔

اس کتاب کے آخر میں عازم صاحب نے کچھ کشمیری نظموں کے تراجم بھی شامل کیے ہیں جو اپنا ایک الگ ہی ذائقہ رکھتے ہیں۔ کشمیری ان کی مادری زبان ہے اور اردو مادری زبان ہی کی طرح عزیز کہ انھوں نے اپنی شاعرانہ شخصیت کے اظہار کا حوالہ اس زبان کو بھی بنایا ہے، لیکن انہیں فارسی زبان سے بھی شغف ہے اور وہ گاہ بہ گاہ اس میں بھی فکر سخن کرتے رہے ہیں۔ سب سے آخر میں دو فارسی غزلوں کی شمولیت ان کے اسی شغف کو ظاہر کرتی ہے۔

مظفر عازم کھلی آنکھوں اور کھلے ذہن کے شاعر ہیں۔ ان کے مشاہدات جب شعری پیکر اختیار کرتے ہیں تو ایسی شاعری وجود میں آتی ہے جس کے مطالعہ سے ہم اپنے دور و نزدیک کی دنیا کو خود سے باتیں کرتا ہوا پاتے ہیں۔

 

سازِ سلاسل : چند امتیازی پہلو

- جناب مظفّر ایرج -
8 مئی 2003

۔۔۔ تخلیق کی شناخت انعام و اکرام کی مرہون نہیں ہوتی کیونکہ ادب محض تفنن طبع کا ذریعہ نہیں، زندگی کرنے کا ہنر بن چکا ہے۔ امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ کرۂ ارض سے کرۂ سماوات تک سفر کرتے ہوئے، عناصر و عوامل کا احاطہ کرتے ہوئے زندگی کی ان حقیقتوں کی نہ صرف نشاندہی کرتا ہے جو ہمارے اندر اور ہمارے باہر موجود ہیں، بلکہ ان سے آنکھ ملانے کی بھی ہم میں لگن پیدا کرتا ہے :

بس اپنے آبلۂ پا کی آبرو رکھ لے                           

جنونِ شوق نہ منزل نہ رہگزر دیکھے

کیا بتاؤں مرے پڑوسی تھے                              

اپنے گھر کو جلانے والے لوگ

وہ پیڑ اپنی خزاں کو سلام کرتا ہے                                   

جو برگ زرد کی آغوش میں ثمر دیکھے

برباد تگاپو میں، چمن گشت کی خو میں              

برتاؤ ہواؤں سے حریفانہ رہا ہے

وہ گوشہ کہاں ہائے جہاں پھیل کے بیٹھیں              

اس کون و مکاں میں تو گزارا نہ ہوا ہے

جب تخلیق کار کے خیال کی پرواز اتنی وسیع ہو جاتی ہے کہ اس کو کون و مکان کا پھیلاؤ تنگ نظر آنے لگے تو اس کے فن میں تعقید لفظی یا معنوی یا یوں کہیے بیان میں روانی کی کمی بلکہ ٹھہراؤ آئے تو اسے انتہائی دشوار گزار راہوں سے گزرنا پڑتا ہے، کیونکہ نفسِ مضمون کی قربانی کا مسئلہ سامنے آتا ہے۔ جب ایسا وقت شاعر پر آ پڑے تو قدرتی بات ہے کہ ثقیل اور غیر مانوس الفاظ کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس سے سلاست اور روانی بلکہ اسلوب تک متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ لیکن عازم اس مقام سے اس طرح گزرے ہیں جیسے مکھن میں سے چاقو :

اک سفر کی منزل ہے اس سے دو قدم آگے              

جس مقام تک آ کر پر کسی کے جلتے ہیں

کریدتا نہ قلم زخم دل اگر عازم                          

کلام زرد زباں کا کہاں ہرہ ہوتا

پھول کا زخم چاٹتی تتلی                                

سینۂ غنچہ میں سنان ہے آج

کنویں کی کوکھ میں پتھر پہ لیٹی                                   

صدا گونگی تھی لب نا آشنا تھی

کسے معلوم کہ وہ آک ہے یا ابر کرم                    

لوگ اس بات پہ خوش ہیں کہ ادھر آئے گا

یوں تو شاعری میں پہلے ہی سے رد و قبول کا عمل جاری ہے لیکن ادھر لگ بھگ پچھلی آدھی صدی کے دوران اس میں جو عملی تجربے کیے گئے ہیں انہوں نے شاعری کی پوری کائنات ہی بدل ڈالی ہے اور ایسا گنج گراں مایہ ہمیں بہم پہنچایا ہے کہ ہر تخلیق کار اپنی بساط بھر تخلیقات کے توسط سے اپنی سرخروئی کہ دعا کر سکتا ہے کہ اسے ذات کا ادراک، وجود کا عرفان بلکہ اس سے ہمکلامی کا سرا ملا ہے۔عازم کی شاعری بھی ذات، وجود اور ''میں'' سے راست گفتگو کے خزانے اپنے اندر سیٹے ہوئے ہے :

کلائی نے پوروں کو مس کر لیا                          

دھڑکتا کھلونا بلاؤں میں ہے

پگھلتی برف کے دن ہیں خدا کرے عازمؔ                

شگفت گل میں تری آہ کا اثر دیکھے

پھڑکتا پرندہ فضاؤں میں ہے                              

بڑھاپا لڑکپن کے گاؤں میں ہے

وہ دیپ آج بھی پاگل ہوا سے لڑتا ہے                    

کہ جس کی جوت پہ سورج کی روشنی ہو نثار

ہم گدا گر ہیں، پر نہیں اس کے                         

اسم جس کا کلید باب نہیں

صلیب: سرو خراماں، گلے کی پھانس: فغان            

تمہارا گھر ہے ہمارا غریب خانہ صبا

منارے رہے ہیں ہم اس طرح اپنی عمر رواں               

جھکی کمر کو ہلال شباب لکھتے ہیں

عکس کا شکاری ہوں آئینے بناتا ہوں                     

فطرت خلیلی میں سلسلہ ہے آذر کا

ساحل آ پہنچا سمندر ساکن ہے                           

اب تو بیڑا پار ہے، اب کھو جائیں گے

شاعر کی نظر بہت ایسے مظاہر اور حقائق کا احاطہ کرتی ہے جو فلسفی کی بالغ نظری کی زد میں نہیں آتے، کیونکہ شاعر خشک اور خنک فلسفیانہ مو شگافیوں کے نتائج سے زیادہ مظاہر و حقائق کو مرکز خیال سمجھ کر اپنی منزل کا تعین کرتا ہے اور ایک ایسے عالم کی خبر لاتا ہے جہاں تک فلسفی کی رسائی ممکن نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ کہ شاعری فلسفے سے زیادہ دور نہیں۔ عازم نے فلسفے کو بھی شعر میں کامیابی سے بیان کیا ہے :

میرے قدموں کی خاک خوش آثار                                   

کن ستاروں کے انتظار میں ہے

دائرہ دائرہ ہے جبر حیات                                 

بادل آئیں گے جو گیا دریا

کامیاب یا اچھی شاعری میں اصطلاحیں، تراکیب اور استعاروں کا استعمال اہم ہے۔ عازم کی شاعری میں جگہ جگہ ان خصوصیات کے ساتھ ساتھ ''قوسی تراکیب'' کا بڑی چابکدستی سے استعمال ہوا ہے جس سے عازم کے کلام کو ایک نیا افق دستیاب ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عازم کا کلام اکہرے پن یا یکرنگی یا یکسانیت کے الزام سے خود کو بچا لے جاتا ہے :

شہر آہن میں جھلستی ہے مری خواب پری                            

کسی پاتال کے چشمے میں نہا آئے گی

خواب وادی کے خریدار کو تڑپائے گی

خواب نگر کا سایۂ ابر بہاراں تھا

سوچ صدف میں سایۂ ابر بہاراں تھا

اور، گل آنکھوں، سنگ الفاظ، نمک نمک بوندیں وغیرہ